ناموں کی تختیاں دکانوں پر پھر آویزاں کی جائیں گی: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

ابھی دو مہینے سے کچھ ہی زائد مدت گزری ہے کہ سپریم کورٹ نے 22 جولائی کو اپنا ایک اہم فیصلہ صادر کیا تھا جس کی رو سے یہ قطعاً جائز نہیں ہے کہ ہوٹلوں اور دکانوں کے مالکان سے اس بات کا مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی دکانوں اور تجارتی مقامات پر اپنے ناموں کی تختیاں آویزاں کریں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس پس منظر میں آیا تھا کہ اتراکھنڈ اور اترپردیش کی پولیس نے کانوڑ یاترا کے موقع پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ کانوڑیوں کے راستہ میں پڑنے والے تمام ہوٹلوں، ٹھیلوں اور دکانوں کے مالکان اپنے نام کی تختیاں لگائیں تاکہ کانوڑیوں کے مذہبی جذبات کا تحفظ ہو سکے۔ ایک جمہوری ملک میں قانون کے محافظوں کے ذریعہ کیا گیا یہ ایسا مطالبہ تھا جس نے ہر جمہوری مزاج شہری کے اندر یہ تاثر پیدا کر دیا کہ ایسے غیر آئینی احکامات کا بنیادی مقصد ایک خاص مذہب و ملت کے لوگوں کو شکار بنانا ہے۔ اس معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے کئی اراکین پارلیمنٹ، عوامی دانشوران اور ارباب فکر و عمل نے اس معاملہ میں مداخلت کی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ سے گزارش کی کہ اس غیر دستوری فرمان پر روک لگائے اور ملک کی جمہوری قدروں کی حفاظت کرے۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر اس پر توجہ کی۔ جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بینچ نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم عبوری حکم صادر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ پولیس کے فرمان کے نفاذ پر روک لگائی جائے۔ جج صاحبان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بالفاظ دیگر اشیاء خوردنی کے بیچنے والوں سے اس کا مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان اشیاء کی فہرست نمایاں طور پر لگائیں جو وہ کانوڑیوں کے لیے پیش کر رہے ہیں لیکن ان کو اس بات کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مالکان یا خدمت گاروں کے اسماء یا تشخص کو ظاہر کریں۔ اسی عبوری فیصلہ میں موقر جج صاحبان نے پولیس کو یہ ہدایت بھی دی تھی کہ ایسے کسی فرمان کی اجازت صرف معتبر ادارہ کو ہوگی۔ پولیس اس قانون کو غلط طریقہ سے استعمال نہیں کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس کی بھی وضاحت کی تھی کہ ہوٹلوں یا دکانوں کے مالکان سے اپنے نام آویزاں کرنے کا مطالبہ کرنا ملک میں جاری دستوری و قانونی اصول کے خلاف عمل ہے۔ جب اتنی تفصیل سے سپریم کورٹ نے بتا دیا تھا کہ ناموں کو واضح طور پر لگوانا قانونی اور آئینی طور پر جائز نہیں ہے تو پھر اترپردیش کی سرکار نے دوبارہ اسی قسم کا مطالبہ ہوٹلوں اور ریستوران کے مالکان سے کیوں کر ڈالا؟ جبکہ اس ملک کا ہر شخص واقف ہے کہ فرقہ واریت کی سیاست عام ہوچکی ہے اور ایسے فرمانوں کا اثر مسلم اقلیت پر ہی سب سے زیادہ پڑے گا اور ان کی اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوجائے گی جس کے منفی سماجی اثرات بھی سامنے آئیں گے۔ اترپردیش کی سرکار نے اس بار یہ فرمان اس بہانہ سے جاری کیا ہے کہ اشیاء خوردنی میں جو گندی یا مضر صحت چیزیں ملائی جاتی ہیں، ان پرقابو پانا پیش نظر ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہی مقصودِ فرمان ہے تو اس کے لیے ناموں کی تختیاں لگوانا کیوں ضروری ہے؟ یہ کام تو اس کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یوپی سرکار نے یہ فرمان بھی جاری کیا ہے کہ تمام ہوٹلوں اور ریستوران پر سی سی ٹی وی کیمروں کا لگایا جانا ضروری ہے تاکہ جب کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس میں مضر صحت اشیاء کے پیش کرنے سے صحت عامہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہو یا سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہوتا ہو تو ان کیمروں میں قید ویڈیو کی مدد سے صورت حال کو حل کرنے میں مدد لی جا سکے۔ یہ ایک ایسا فرمان ہے جس کے بارے میں شاید ہی کوئی اعتراض کرے۔ لیکن اسی فرمان میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا جانا کہ مالکان اور ان کے ملازموں کے نام آوایزاں کیے جائیں اور پھر اس کی ریاست گیر پیمانہ پر تصدیق بھی کروائی جائے کہ اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس غرض کے لیے فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ٹیم کے ساتھ پولیس اور لوکل ایڈمنسٹریشن کی ٹیم بھی شامل ہوگی اور مشترکہ طور پر وہ اس بات کی تصدیق کرے گی کہ نام آویزاں کرنے کے فرمان پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے فرقہ واریت کی فضا مزید بڑھے گی اور اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو پولیس کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑے گا۔ معمولی سی معمولی بات کا بہانہ بناکر ان کے لائسنس رد کیے جا سکتے ہیں یا پھر ان کے اقلیتی تشخص کی بناء پر ان کی تجارتوں کا بائیکاٹ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کا بھی خدشہ ہے کہ کوئی تشدد پسند اور جنونی بھیڑ اقلیتی طبقہ کے تاجروں اور ان کے ملازموں کو تجارت سے بالکل بے دخل کرنے کے لیے ان پر بے بنیاد الزام لگا کر حملہ آور ہوجائے اور ان کے جان و مال کو نقصان پہنچائے۔ آخر گزشتہ چند برسوں میں یہ بھی تو دیکھا گیا ہے کہ اقلیتی طبقہ کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی لنچنگ کبھی گائے کے نام پر تو کبھی لو جہاد کے نام پر ہوتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم کشی کے نعرے ان ہندو مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ دیے گئے ہیں جن کا اثر و رسوخ ہندو سماج پر بہرکیف بہت حد تک ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی تجارت کے بائیکاٹ کا شوشہ تو وقتاً فوقتاً چھوڑا ہی جاتا رہتا ہے تاکہ انہیں اقتصادی طور پر اپاہج اور بے دست و پا بنا دیا جائے۔ ایسے تناؤ سے پر ماحول میں ایک بار پھر نام و تشخص کے نام پر سماج کو تقسیم کرنا کہاں کی عقلمندی ہے اور اس کا کیا جواز پیدا ہوتا ہے؟ آخر مسلم اقلیت کے ساتھ ایسا برتاؤ کب تک کیا جاتا رہے گا؟ کیا ایک مہذب اور جمہوری سماج کو یہ زیب دیتا ہے کہ ارباب اقتدار اپنی اہم دستوری ذمہ داریوں کو بھول کر اس بات کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں کہ آپس میں تقسیم و انتشار کی سیاست کو کیسے پروان چڑھانا ہے؟ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اترپردیش کے بعد اب ہماچل پردیش میں کانگریس پارٹی کی سرکار میں پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ اور شہری ترقی کے وزیر وکرم آدتیہ سنگھ نے بھی اسی کے مماثل قانون کی وکالت کر دی ہے جس کے تحت ٹھیلوں اور ہوٹلوں کے مالکان کو اپنا شناختی کارڈ نمایاں کرنا ہوگا۔ آخر اس سلسلہ کا آخری انجام کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ہر شئے کو دین دھرم میں بانٹنے اور تشخص کی سیاست کو حد سے آگے بڑھانے کا یہ اثر ہوگا کہ ملک اور سماج میں بے چینی پیدا ہوگی جس کا منفی اثر اقتصادی ترقی پر بھی پڑے گا۔ ایسی صورت میں بہتر تو یہی ہوگا کہ نام کی تختیاں لگوانے کی سیاست سے باز رہا جائے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کیا جائے۔ یہی ایک متحد اور پراعتماد ملک کے حق میں ہوگا۔ایک اور اہم بات جو ہم سب کے لیے بحیثیت ایک ذمہ دار شہری اور مسلمان ہونے کے ہم پر عائد ہوتی ہے وہ یہ کہ ہمارے ارد گرد سماج کا کوئی بھی فرد اگر ایسی کوئی حرکت انجام دیتا ہے جو خلاف قانون، غیر اخلاقی یا غیر مذہبی ہو تو سماج کے ذمہ دار افراد ان تک پہنچیں اور اصل مسئلہ کو سمجھتے ہوئے انہیں سمجھائیں کہ ایسا کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں ہو سکتا اور نہ ایسا کرنے سے سماج کا بھلا ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS