ناگپور کی آگ : ’چھاوا‘ فلم کی چنگا ری کا نتیجہ یا کسی سازش کا ؟

0

شاہد زبیری

مہاراشٹر ساہو جی مہاراج ،جیوتی با پھولے ،ساوتری با پھولے ،بھیم رائو امبیڈ کر، بدرالدّین طیب اور فرنانڈیز کا صوبہ ہے ۔یہ سوشلسٹ تحریکوں ،بائیں بازو کی تحریکو ں اور ٹریڈ یونینوں کا صوبہ رہا ہے، یہاں آر ایس ایس اور بی جے پی کی دال کبھی نہیں گلی ۔حالیہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی بی جے پی کو کامیابی ہاتھ نہیں لگی تھی۔ اسمبلی انتخابات میں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا یا یوں کہیں کہ ووٹر لسٹوں کی کرامت تھی ،لیکن جب سے اس صوبہ میں بی جے پی کو اقتدار ملاہے یہ صوبہ اتھل پتھل کا شکار ہے۔ انتخابی وعدوں کو بی جے پی سرکار پورا نہیں کر پارہی ہے، اس صوبہ کا شہر ناگپور جہاں آر ایس ایس کی داغ بیل ڈالی گئی تھی اور جہاں آر ایس ایس کا ہیڈ کواٹر ہے اور مہا راشٹر کے وزیر اعلیٰ کا انتخابی حلقہ بھی ہے۔یہ شہر بابری مسجد کی شہادت پر اور بم دھماکوں کی ہلاکت خیزی کے باجود فرقہ واریت کی آگ سے بڑی حد تک محفوظ رہا تھا ۔اب یہ بھی فرقہ واریت کے شعلوں کی زد میں آگیاہے۔ مہاراشٹر سرکار اور گودی میڈیا پہلے سے تیّار کی گئی کسی بڑی سازش کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ،اب تو اس سازش کے پیچھے پڑوسی بنگلہ دیش کا لنک بھی سامنے آگیا ہے ،جس کا انکشاف خود مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کیا ہے کہ جن کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ہے۔

انہوں نے ایک مراٹھی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ کچھ اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس بنگالی زبان میں تھیں، جو زبان بنگلہ دیش میں بولی جا تی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پہلو کی بھی جانچ کی جا ئے گی کہ کیا کوئی بڑا منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما تھا ۔سوال یہ بھی ہے کہ ناگپور کی آگ چھاوا فلم کی چنگاری کا نتیجہ ہے یا کسی سازش کا ؟ سازش ہے تو کس کی ہے ۔ اس کی تحقیقات کرائم برانچ کے سپرد کی گئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس نتیجہ پر پہنچتی ہے ۔ 17مارچ کو ناگپور میں اور نگزیب کی قبر کو ہٹانے کو لے کر ہندوتوا وادی تنظیموں جن میں آر ایس ایس سے وابستہ تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے جو اشتعال انگیزی کی اس پر پردہ نہیں ڈالا جاجا سکتا،جو کچھ ناگپور میں ہوا ہر امن پسند اس کی مذمت کرے گا اور کرنی بھی چاہئے ۔مہاراشٹر سرکار نے آخر کیوں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو اشتعال انگیزی کی اجازت دی جو تشدد اور آگ زنی کا سب بنی ۔ کیا سرکار کواس کی اجازت دینی چاہئے تھی۔

انٹیلی جنس محکمہ کیا کر رہا تھا اور یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ ستم یہ کہ بی جے پی کے وزیر نتیش رانے مسلسل اشتعال انگیز بیانا ت دے رہے تھے ،ان کو وزیر اعلیٰ نے ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکا ؟اس سب کیلئے بی جے پی سرکار ہی ذمّہ دار مانی جائے گی ۔سرکارچاہتی تو اس کی نوبت ہی نہ آتی ۔ اس پورے سانحہ کی تفصیل میں جا ئے بغیر ‘ چھاوا ‘فلم کے کردار کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔ اورنگزیب کی قبر کے ہٹائے جانے کا فتنہ اسی فلم کی دین ہے ۔ او رنگزیب کی قبر سے مسلمانوں کی کبھی کوئی عقیدت نہیں رہی، اورنگزیب ایک بادشاہ تھا کوئی ولی نہیں جو ہندوستان کی تاریخ کا حصّہ ہے۔ اس بادشاہ کی اچھائی اور برائی بھی اس کے ساتھ گئی اب 300سال بعد کیوں اس کی قبر کو اہمیت دی گئی ۔ اورنگ آبا د جو اب سنبھا جی مہا راج نگر بن گیاہے ،وہاں یہ قبرسیکڑوں سال پہلے سے ہے اور آرکیو لوجیکل سروے ( محکمہ آثار قدیمہ )کی نگرانی میں ہے ۔اگر مرکزی سرکار اور مہارشٹر سرکا ر چاہے تو قبر کو منہدم کرانے سے کون اس کو روک سکتا ہے۔یاد رہے کہ ایک ترقی یافتہ سماج تاریخ کے مظالم کاظالموں کی سمادھی یا قبر سے انتقام نہیں لیتا اور گڑے مردے نہیں اکھاڑتا ہے ۔

ترقی یافتہ سماج کی نظر آج کو اچھا بنانے اور کل کو روشن کرنے پر رہتی ہے۔ ایسا سماج تاریخ میں نہیں جیتا بلکہ تاریخ سے سیکھتا ہے ۔گزشتہ10مارچ کے اسی کالم میں’فلموں کو فرقہ واریت کا ہتھیار بنا نا ملک اور سماج کیلئے خطرناک ‘ کے عنوان سے جس خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا وہ سامنے آ گیا ۔کشمیر فائل ،کیرالہ اسٹوری ،پدماوت اور چھاوا جیسی فلمیں ہمارے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا تی ہیں ۔’چھاوا ‘فلم مراٹھی زبان کے ناول ‘چھاوا’ پر بنائی گئی ہے تاریخ پر نہیں ۔اس فلم کے بنا نے والے یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انہوں نے جو کچھ فلم میں دکھا یا ہے وہ صد فیصد صحیح اور سچ ہے اور اس میں رنگ آمیزی نہیں کی گئی ہے،جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہے ان کے مطابق فلم کے کچھ مناظر انتہائی اشتعال انگیز ہیں جس دن سے یہ فلم سنیما گھروں میں دکھانی شروع کی گئی تھی تب سے نفرت کا طوفان سر اٹھانے لگا تھا خود مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے بھی مانا ہے فلم کے کچھ مناظر ایسے ہیں جن میں اورنگزیب کے مظالم دیکھ کر جذبات مشعل ہوتے ہیں۔

یہ جانتے ہوئے بھی کیسے اس فلم کی نمائش کی اجازت دی گئی اور سینسر بورڈ نے کیوں اس فلم کو سرٹیفکیٹ دیا، حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس فلم کی تعریف کی ۔بی جے پی سرکاریں اور گودی میڈیا فلم کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔یوپی کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے بھی اس فلم کاگن گان کیا ہے ۔ان کو تو افسوس ہے کہ ایسی فلمیں پہلے سے کیوں نہیں بنا ئی گئی ۔ایسے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک’ چھاوا ‘فلم اس کے نفرتی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی جو فلمیں بنائی گئی ہیں وہ بھی نفرتی ایجنڈہ کی تکمیل میں معاون تھیں ،جن سے نفرتوں میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ آر ایس ایس کے چیف پرچارک نے قبر کو لے کر پریس کانفرنس میں جس طرح اس سارے فتنہ سے اپنا پلّہ جھاڑا اور کہاکہ 300سال پہلے کے واقعات کا آج کے حالات سے کوئی تعلق نہیں، کوئی رلیونس نہیں ۔

اگر آر ایس ایس کی طرف سے یہ بات شروع ہی میں کہہ دی جا تی تو ناگپور جلنے سے بچ جا تا۔آر ایس ایس اس معاملہ میں اگر ایماندار ہے تو اس کو اس اشتعال انگیز فلم پر پابندی لگا نے کی تجویز سرکار کو دینی چاہئے اور وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کو سختی سے ہدا یت کرنی چاہئے کہ وہ گڑے مردے اکھاڑنے سے باز رہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور ،جو لوگ اورنگزیب کی قبر کھود نا چاہتے ہیں وہی مسجدوں کو کھودنے کی مہم میں پیش پیش ہیں، وہ مسجدوں یا قبروں کو نہیں کھود رہے ہیں، حقیقت میںوہ ملک کے امن و سلامتی ،ترقی اور خوشحالی اور صدیوں کے آپسی بھائی چارہ کی قبریں کھود رہے ہیں ۔ مغلوں کی یادگاروں اور علامتوں کو ہی اگر مٹاناہے تو دہلی کے ہمایوں کے مقبرے ،آگرہ کے تاج محل، شاہ جہاں اور ممتاز محل کی قبروں کو بھی زمین بوس کر دینا چاہئے، دہلی کے لال قلعہ اور آگرہ کے قلعہ کو ہی کیوں چھوڑا جا ئے ۔

بابر ہوں کہ ہمایوں یا اکبر اور جہانگیر ان سب کے مقبروں اور ان کی غلامی کی یادگاروں سب کو ڈھا دینا چا ہئے ۔ غلامی کی علامات اور مظالم کی نشانیاں صرف مغلوں ہی کی نہیں ہیں انگریزوں کی بھی ہیں۔ پھر کیوں نہ انگریزوں کی غلامی کی علامتوں گیٹ وے آف انڈیا اور انڈیا گیٹ کو بھی ڈھا دیا جائے اور پرانی پارلیمنٹ کی عمارت ہی کو کیوں بخشا جا ئے۔ ان سب پر کدال چلا دینی چاہئے، کیا انگریزوں نے ہم پر کچھ کم ظلم ڈھائے ہیں ؟ مغلوں نے جو لوٹا یہیں چھوڑ گئے انگریز تو ساتھ لے گئے ۔ہندتوا وادی طاقتیں جو یہ سب کررہی ہیں کیا اس سے ہندوستان کی غریبی دور ہو جا ئے گی اور 80کروڑ ہندوستانی 5کلو مفت اناج کی اہانت سے بچ جائیں گے،بے روزگاروں کو روزگار اور کسانوں کو فصلوں کے واجب دام ،سماج کو غنڈوں بدمعاشوں اور لینڈ مافیا سے نجات، خواتین کی عزت و آبرو کی حفاظت ،غریبوں کو سماجی انصاف اور عدالتوں سے سستا اور جلد انصاف، ناداروں کو مفت تعلیم ، علاج اور دوا وغیرہ میسر ہوسکتے ہیں؟۔ ان سوالوں کا جواب جب بھی ڈھونڈا جائے گا تو نفی میں ہوگا ۔آخر کب تک مسلم اقلیت کے ساتھ نفرت کا یہ کھیل کھیلا جا تا رہے گا ۔ یہ کھیل بند ہو نا چاہئے۔یہ بات بی جے پی کو یاد رکھنی چاہئے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہے گی، ملک باقی رہے گا، اس کو نہیں بھولنا چاہئے کہ:

تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشیںتھا
اس کو بھی اپنے خدا ہو نے پہ اتنا ہی یقیں تھا

zuberi019@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS