سرور دو جہاں، خاتم الانبیاء گویا ابر کرم وہ ہے نام نبیؐ
جام وحدت پئیں، جام اُلفت پئیں، سرخرو ہر طرح ہوں غلام نبیؐ
غنچے کھلنے لگے، گل مہکنے لگے، جیسے سارے چمن پر شباب آگیا
رقص کرنے لگیں شاخ اور پتیاں، جب صبا نے سنایا پیام نبیؐ
رب اکبر کی تخلیق ہے یہ جہاں صدقہ ہم کو رسولؐ خدا کا دیا
ایسی قربت رکھی اپنے محبوب سے رکھا کلمہ میں اللہ نے نام نبیؐ
دست بستہ کھڑی ہوگئیں بجلیاں جو جلانے کو آئی تھیں میرا جہاں
مدحت مصطفیٰ میں، میں مصروف تھا لب ادا کررہے تھے سلام نبیؐ
شہہ پہ عباس و اکبر فدا ہوگئے صدقہ زینب نے بیٹوں کا اپنے دیا
جان دے کر صداقت پہ قائم رہے یہ تھے آل نبیؐ اور غلام نبیؐ
گلشن چشت سے ان کے دربار سے ہے دُعا دونوںعالم کے سردار سے
با وکالت نبیؐ بخش دے اے خدا صرف اور صرف ہم ہیں غلام نبیؐ
پھیلا پھیلا تو دامن تو پھیلا ضیاءؔ جو بھی چاہے گا تجھ کو ملے گا یہاں
شہر اجمیر میں صدقہ مصطفیٰ بانٹتے ہیں یہاں پر غلام نبیؐ
ضیاء قادری ،حیدرآباد
٭٭
مرے ساتھ میرا رب ہے مجھے کیا کسی کی پروا
نہ ہے زندگی کی حسرت نہ ہے موت ہی کی پروا
مرا دل دھڑک رہا ہے تو ہے اُس کی مہربانی
اُسے مجھ سے بھی ہے بڑھ کر مری زندگی کی پروا
میں ہوں بحرِ آگہی کا کوئی بے قرار تنکا
مرا رب ہی کر سکے گا مری بے بسی کی پروا
سرِ حشر نارِ دوزخ اُنہیں خود دبوچ لے گی
جنہیں جیتے جی نہیں تھی کبھی بندگی کی پروا
مرا پاسبان رب ہے مجھے کوئی خوف کب ہے
مری بے خودی کو شاید ہے مری خودی کی پروا
میں جو مانگتا ہوں مجھ کو، مرا رب نوازتا ہے
مجھے کس لئے ہو آخر مری مفلسی کی پروا
مرے جینے اور مرنے سے غرض نہیں کسی کو
مرے رب نے کی ہمیشہ مری زندگی کی پروا
ہمیں جس نے ہے بنایا وہ بچائے ہر بَلا سے
کسی آدمی کو کیا ہو کسی آدمی کی پروا
مجھے داد کی ہے خواہش نہ کرم کی آس کوئی
وہ اگر کرے تو بس ہے مری شاعری کی پروا
جو ہدایتوں کی راہوں سے بھٹک گئے ہیں حافظؔ
وہ سیاہ بخت کرتے نہیں روشنی کی پروا
حافظ کرناٹکی