اردو کی بقا کیلئے باہمی مفاہمت درکار

0

خواجہ عبدالمنتقم

اصحاب علم ودانش اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کوئی بھی زبان جو کسی بھی دور میں ادب بشمول قانونی ادب یا دفتری زبان رہی ہو، وہ کبھی نہیں مٹ سکتی البتہ نظام حکومت یا ملک کی جغرافیائی صورت حال بدلنے کے سبب زمانۂ مستقبل میں اس کی اہمیت کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔یہی کہانی ہے اردو کے ہندوستان کی تہذیب اور اردو کے مابین ناقابل انقطاع رشتے کی جو کئی صدیوں تک خاص کر 19ویں اور 20ویں صدی میں لازم وملزوم کے طور پر قائم رہا۔ ان دو صدیوں کے درمیان اردو ادب کا فروغ اور اردو میں تحریر کی گئیں دستاویزات اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ گزشتہ کئی صدیوں میں اردو کا فروغ ہمارے ثقافتی سفر کا نا قابل فراموش حصہ ہیں۔

ایک جانب حکومت ہند کی اردو کے فروغ سے متعلق کلیدی ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان عالمی کتاب میلے میں معاصرادبی صحافت عنوان کے تحت مذاکرہ کا انعقاد کر رہی ہے اور ساتھ ہی ادب اطفال، افسانہ نویسی، فن ترجمہ، پارلیمانی کارروائی میں اردو ادب کا استعمال جیسے موضوعات بحث کا موضوع رہے ہیں اور کونسل کی جو اسکیمیں بند ہوگئی ہیں، ان کے دوبارہ شروع کرانے کے لیے بھی خامو شی کے ساتھ مخلصانہ کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری جانب کبھی کسی ایوان میں تو کبھی کسی فورم پر اردو اور اردو والوں کے خلاف غیر ادبی زبان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ آئین کی دفعہ 29 پر ضرب کاری نہیں تو اور کیا ہے؟ اس دفعہ میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جدا گانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو، اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔سپریم کورٹ بھی ٹی ایم اے پائی والے معاملے میں یہ بات کہہ چکا ہے کہ ہمارا آئین بھارت کے عوام کے الگ الگ رنگ اور روپ کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ ان کی جداگانہ حیثیت کے باوجود ان میں سے ہر ایک کو مساوی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اسی طرح ہی ایک متحدہ سیکولر قوم وجود میں آتی ہے۔

یاد رہے کہ اردو اسکولوں کو بند کرنے،عدالتوں اور دیگر محکمہ جات میں اردو الفاظ کے استعمال پر پابندی لگانے سے ایسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کا قبل اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ مدعی،مدعا علیہ، عرضی، عرضی دعویٰ، جواب دعویٰ، جواب الجواب، عدالت، شہادت، شکایت، سماعت، تفتیش، تعمیل، تکمیل، مثل، دریافت، ترمیم، استغاثہ بیع نامہ، رہن نامہ، منظوری، خارج، حکم، فیصلہ، ہدایت، نقشۂ مرگ، فرد مقبوضگی آلۂ جرم، فرد مقبوضگی پارچات خون آلود، دستاویز بیع وشریٰ، دستاویزمثنیٰ، دستاویز قبولیت، دستاویز انتقال، دستاویز فارخطی، دستاویز اہتمام، دستاویز برأت، دستاویز عاق یا دستاویز محروم الارثی(Deed of disheritance)، دستاویز انفساخ شراکت یا تولیت نامہ، ہبہ نامہ، رہن نامہ، گروی نامہ، پٹہ نامہ، تقسیم نامہ، شراکت نامہ، وقف نامہ، حقیت نامہ(Title deed) جیسی اہم دستاویزات کا مطلب بتانے والے لوگ ایک عنقا قبیلے کی شکل اختیار کر لیں گے۔ آج بھی ہمارے عدلیاتی افسران کو ان دستاویزات کے ترجمے اور تعبیر میں دقت آرہی ہے مگر ہماری کئی ریاستیں اردو کو شجر ممنوعہ قرار دینے پر بضد ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اس سلسلے میں کئی افسران نے خود ہم سے بھی نجی حیثیت میں رابطہ قائم کیا۔ 1980 کی بات ہے کہ جب ہم خود ایک معاملے میں عدالت کی جانب سے ایک گواہ کا بیان درج کر رہے تھے تو اس نے بطور ثبوت مغلیہ دور کا فرمان پیش کیا۔اس طرح کی دستاویزات کو بطورثبوت پیش کرنے کا سلسلہ اسی طرح صدیوں تک چلتا رہے گا۔

کیا اردوکے ادبی شہ پاروں اور ان کے خالقوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟کیا اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اردو شعراء جن کا تعلق مختلف مذاہب اور علاقوں سے تھا، نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟کیا ان اردو نغموں کی نغمگی پر قدغن لگایا جا سکتا ہے جن کے سننے کے بعد رام،رحیم، جگجیت اور ڈی سوزا چاروں کو سکون قلب حاصل ہوتاہے اورسکون کی نیند آنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ مانا کہ آج اردو روز گار دوست زبان نہیں ہے لیکن آج بھی ہماے ملک میں سیکڑوں ایسی اسامیاں ہیں جن کے لیے اردو جاننا ضروری ہے اور ان میں کچھ اسامیاں مخصوص طبقات کے لیے ریزرو بھی ہوتی ہیں اور ان طبقا ت کا امیدوار نہ ملنے کے باوجود ان اسامیوں کو carry forward نہیں کیا جاسکتا۔ دریں صورت ان درجات سے تعلق رکھنے والے افراد اردو سیکھنے کے لیے مجبور ہیں۔صرف یہی نہیں ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو بھی اگر اردو کی جانکاری ہو تو انہیں اپنے فرائض منصبی کی بہتر ادائیگی میں مدد ملتی ہے۔ صرف یہی نہیں کمپنیوں کو اپنے اشتہار تیار کرانے کے لیے اردو جاننے والوںکی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں۔ کیا ہمارے اینکر اور شرکائے پروگرام فخریہ انداز میں اردو الفاظ کا استعمال نہیں کرتے؟ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ملازمت کے معاملے میں صرف انگریزی کا بول بالا ہے اس معاملے میں اردو ہی نہیں، دیگر علاقائی زبانوں کا بھی یہی حال ہے۔اردو کو پھر بھی قومی سطح پر عام زندگی میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ البتہ ہندی کی حیثیت قدرے بہتر ہے لیکن وہ بھی ما سوائے چند اعلیٰ درجے کی اسامیوں کے، انگریزی کی طرح بہترین ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں۔اس لیے کسی بھی علاقائی زبان پر کیچڑ اچھالنا اچھی بات نہیں۔ ورلڈاردو ایسوسی ایشن کے سربراہ پروفیسر خواجہ اکرا م الدین نے بھی ایک ٹی وی چینل پر بلا جھجک یہ بات کہی کہ صرف اردو ہی نہیں بلکہ دیگر علاقائی زبانوں کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ دریں صورت کسی مخصوص فرقے کی نہیں بلکہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سب دلجمعی سے ان کے تحفظ کے لیے آگے آئیں۔ کسی زبان کو یا اس زبان کے بولنے والوں کوکسی مذہب، فرقے یا طبقے سے منسوب کرنا یا ان کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرنا اپنی زبان خراب کرنے والی بات ہے۔ پھر بھی اگرکوئی روغن شیریں کو روغن تلخ کہے تو یہ اس کے ذائقہ تلخ اور یرقانی نظروں کا قصور ہے نہ کہ اردو اور اردو والوں کا۔یہ اردو کے آئین کے 8ویں جدول میں شمولیت کی بے حرمتی نہیں تو اور کیا ہے؟

مندرجہ بالا تجزیہ سے منطقی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی زبان ایک بار سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرلیتی ہے یا ملک کا ادب اس زبان میں ہو تو ملک کے نقشۂ السنہ پر اس کے نقوش ہمیشہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت اپنے جغرافیائی قتل کے بعد اردو آج بھی زندہ ہے اور جب تک ہندوستان کا موجودہ لسانیاتی و ثقافتی نظام، جسے معاصر دنیا کے نظام ہائے ادب میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہے،قائم ہے زندہ رہے گی مگر جذباتی نعروں سے نہیںبلکہ سنجیدہ سوچ اور بہتر حکمت عملی و فروغ اردو سے وابستہ اردو اداروں کے فروغ سے۔ خود آئین کی دفعہ351جو ہندی زبان کو فروغ دینے سے متعلق ہے، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دوسری زبانوں میں استعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو اپناتے ہوئے اور سنسکرت ودوسری زبانوں سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کو مالا مال کیا جائے۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS