انجینئر محمد سمیع خان
ہندوستان کی آزادی لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ملک کسی ایک مذہب یا برادری کا عطیہ نہیں بلکہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب نے مل کر اس دھرتی کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آئین نے ابتدا ہی سے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوریت ہوگا جہاں ہر شہری کو بلا تفریق مذہب برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ یہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے اور اسی پر اس کی پہچان قائم ہے۔ اگر ہم آزادی کی تحریک پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ جلیانوالہ باغ کے شہیدوں میں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے، عدم تعاون کی تحریک میں سب نے حصہ لیا اور یہاں تک کہ 1857 کی جنگِ آزادی کو بھی ہندو اور مسلمان نے شانہ بشانہ لڑا۔ یہی وہ اتحاد تھا جس نے برطانوی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آزادی کے75 برس گزر جانے کے باوجود کچھ عناصر تقسیم کے زخموں کو بار بار کریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک سیاسی رہنما نے ایسے بیانات دیے جو نہ صرف آئین کے منافی ہیں بلکہ ملک کے اتحاد کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ انہوں نے دو متنازعہ نکات اٹھائے۔ پہلا یہ کہ مسلمانوں کو پاکستان بھیج دیا جائے اور ان کی جائیدادیں دلتوں و کمزور طبقات میں بانٹ دی جائیں، اور دوسرا یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو ملا کر ’’اکھنڈ بھارت‘‘بنایا جائے۔ یہ دونوں نکات بظاہر متضاد ہیں، لیکن دراصل ایک ہی خطرناک سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کی بنیاد تعصب اور نفرت پر ہے۔
پہلا نکتہ براہِ راست ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت پر سوال اٹھاتا ہے۔ مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی بات محض ایک جذباتی نعرہ ہے جس کا کوئی آئینی، قانونی یا عملی وجود نہیں۔ ہندوستان کا آئین صاف کہتا ہے کہ ہر شہری کو مساوی حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 300A کے مطابق کسی بھی شخص کی جائیداد اس کی مرضی کے بغیر ضبط نہیں کی جا سکتی۔ مسلمانوں کی جائیدادیں کوئی خیرات نہیں بلکہ قانونی ملکیت ہیں۔ اگر اس سوچ پر کبھی عمل ہوا تو اس کے نتیجے میں سماج میں بداعتمادی اور نفرت کا ایسا دائرہ پھیلے گا جو ملک کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ مزید یہ کہ اس سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دلت اور پسماندہ طبقات بھی متاثر ہوں گے کیونکہ انہیں محض لالچ کا ایک جھانسہ دیا جا رہا ہے۔
دوسری بات، یعنی ’اکھنڈ بھارت‘کا خواب، بذاتِ خود اس سوچ کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کو ہندوستان میں شامل کر دیا جائے تو وہاں کے کروڑوں مسلمان دوبارہ اسی سرزمین کے شہری بنیں گے۔ پھر سوال یہ ہے کہ ایک طرف مسلمان ملک بدر کرنے کی بات اور دوسری طرف ان ہی مسلمانوں کو شامل کرنے کی بات، یہ کس قدر کھلا تضاد ہے؟ دراصل یہ ایک سیاسی نعرہ ہے جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں۔ بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی آزاد اور خودمختار ملک کو زبردستی دوسرے ملک میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خیال صرف جذباتی تقریروں میں اچھا لگ سکتا ہے لیکن عملی دنیا میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
ان بیانات میں ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عوام نے بی جے پی کو اکثریت مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے دی۔ یہ عوامی شعور کی توہین ہے۔ ہندوستان کے عوام نے ہمیشہ ترقی، امن، روزگار اور تعلیم کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ کسی کمیونٹی کو باہر نکالنا عوام کی ترجیح کبھی نہیں رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر عوامی فیصلے کو اس طرح پیش کیا جائے تو یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہوگا۔ہندوستانی مسلمان باہر سے آنے والے نہیں بلکہ اسی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آزادی کے بعد بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی قربانیاں پیش کیں۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، جو ’’میزائل مین‘‘کہلائے، کیا اس سرزمین کے بیٹے نہیں تھے؟ فوج، کھیل، سائنس، سیاست، ادب، ہر میدان میں مسلمانوں نے ہندوستان کا نام بلند کیا ہے۔ آج بھی ہزاروں مسلمان فوجی سرحدوں پر جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ان کی قربانیوں کو فراموش کرنا تاریخ سے انکار کے مترادف ہے۔ دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد اور علی گڑھ جیسے شہروں میں مسلمانوں نے تعلیمی ادارے قائم کیے، صنعتیں کھڑی کیں اور ملک کے سماجی ڈھانچے کو مضبوط بنایا۔
جہاں تک وقف املاک کا تعلق ہے، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ عوامی خدمت کے لیے مخصوص ہیں۔ ان زمینوں پر اسکول، کالج، اسپتال اور رفاہی ادارے قائم ہیں جو پورے معاشرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اگر کہیں بدعنوانی ہے تو عدالتیں موجود ہیں، قانون موجود ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ وقف املاک پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں، سراسر حقیقت کے منافی ہے۔ وقف کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ادارے ہمیشہ تعلیم و خدمتِ خلق کا ذریعہ رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دلی کی کئی درسگاہیں انہی املاک کی بدولت پروان چڑھیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی طاقت کس چیز میں ہے؟ کیا کسی ایک طبقے کو کمزور کرنے میں یا سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے میں؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ ملک متحد رہا تو ترقی کی نئی راہیں کھلیں، اور جب اندرونی تقسیم نے سر اٹھایا تو دشمنوں کو فائدہ پہنچا۔ کوئی بیرونی طاقت ہندوستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک ہم اندر سے کمزور نہ ہوں۔ سنہری تاریخ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مغل دور ہو یا آزادی کے بعد کی صنعتی ترقی، ہمیشہ اتحاد ہی نے ہمیں آگے بڑھایا۔
یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے بیانات عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل پسِ پشت ڈال کر مذہب کے نام پر عوام کو بانٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سیاسی چال ہے تاکہ عوام کو تقسیم کر کے وقتی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ جو رہنما مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں وہ جان بوجھ کر لوگوں کے اصل مسائل سے نظریں چرا رہے ہیں۔ہندوستان سب کا ہے۔ یہ زمین ہندو کی بھی، مسلمان کی بھی، سکھ کی بھی اور عیسائی کی بھی ہے۔ یہ ملک کسی ایک برادری کی جاگیر نہیں بلکہ سب کی مشترکہ امانت ہے۔ جو اس دھرتی پر پیدا ہوا، وہ اس کا بیٹا ہے اور اس کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ آئین نے سب کو برابر کے حقوق دیے ہیں، اور یہی مساوات ہماری بقا اور ترقی کی ضمانت ہے۔ اگر ہم اپنے آئین، اپنی جمہوریت اور اپنے مشترکہ ورثے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے نعروں سے ہوشیار رہنا ہوگا جو صرف تقسیم اور نفرت کو بڑھاتے ہیں۔
ریاستی صدر آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ(یوپی)