پارلیمانی انتخابات میں اترپردیش کے مسلمانوں کا ہوگا اصل امتحان : وجہ القمر

0

وجہ القمر

اتر پردیش کی سیاست میں ایک بار پھر تبدیلی آئی ہے اور7 سال بعد ریاست کی سیاست اسی جگہ پر پہنچتی نظر آرہی ہے جہاں 2017 میں تھی ہے ،یعنی اترپردیش میں کانگریس اورسماج وادی پارٹی نے پھر اتحاد کرلیا ہے۔ اس بار سماج وادی پارٹی اورکانگریس اتحاد سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہونے کے امکانات ہیں اس پر اگر بات کی جائے تو کچھ سیٹوں کو چھوڑ کر باقی تمام سیٹوں پر دونوں پارٹیوں کو فائدہ ہونے والا ہے،اتنا ہی نہیں اگر کانگریس اورسماج وادی پارٹی نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا تو کافی سیٹوں پر اتحاد کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ایسا نہیںکہ سماج وادی پارٹی اورکانگریس پارٹی میںپہلی بارسمجھوتہ کیاہے بلکہ اس سے پہلے2017کے اسمبلی انتخابات میں بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان سمجھوتہ ہوا تھا اور اس وقت سماج وادی پارٹی47سیٹیں جبکہ کانگریس صرف 7سیٹیں حاصل کر نے میں کامیاب ہوپائی تھی اگر اس وقت کے حالات کے حساب سے بات کی جائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ اس وقت مرکز سے کچھ دن پہلے کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی وداعی ہوئی تھی اور یوپی اسمبلی انتخابات 2017کے وقت اکھلیش یادو ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے وہ دوسرے ٹرم کیلئے جدوجہد کررہے،اس کے باوجود دونوں پارٹیوں کے اتحاد نے پھر بھی 54سیٹیں حاصل کر لی تھیں، اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتحاد کچھ اور دن قائم رہتا ہے تو اس کے نتائج اور بہتر ہوتے ،اس وقت کے رزلٹ دیکھنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ کئی اسمبلی کی سیٹیں ایسی ہیں جہاں کانگریس اورسماج وادی پارٹی اتحاد نے تھوڑے بہت محنت اور کر لیے ہوتے یعنی مسلمانوں کے ووٹ منتشر ہونے سے بچا لیتے تو حکومت مخالف لہر اوربی جے پی کے پروپگنڈہ کے باوجود سماج وادی کا نگریس اتحاد کی سرکار ہوتی۔
2017کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس114سیٹوں پرانتخابات لڑی تھی اور7سیٹیں حاصل کر نے میں کامیاب ہوپائی تھی جبکہ 46سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی تھی اور اس میں کئی ایسی سیٹیں تھیں جہاں مسلمانوں نے کانگریس اور سماج وادی پارٹی پر بھروسہ نہ کر کے کچھ ووٹ بی ایس پی کے کھاتے میںڈال دیے تھے جس کی وجہ سے کانگریس اتحاد کانقصان ہواتھا،اسی طرح سماج وادی پارٹی نے بھی311سیٹوں پر قسمت آزمائی کی تھی اوراسے صرف47سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔یہاں بھی وہی ہواکہ بی ایس پی نے مسلمانوںکو زیادہ تعداد میں ٹکٹ دے کرآھے ووٹ کاٹنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور پھر سماج وادی پارٹی 166سیٹوں پر دوسرے نمبر پر آکر رک گئی تھی۔اس طرح دیکھا جائے تواس اتحاد کو اتنا نقصان نہیں ہوا تھا بلکہ دونوں پارٹیوں کے اتحاد کی212سیٹیں ایسی تھیں کہ ان سیٹوں پر بی ایس پی نے مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ کیا ہوتا توسماج وادی پارٹی اور کانگریس اتحاد266سیٹوں پر کامیاب ہوتا۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بی ایس پی کے قیام سے ہی پسماندہ سماج اس کا ووٹ سمجھاجاتا تھا اور اسی کی وجہ سے مایاوتی تین مرتبہ وزیر اعلی بننے میں کا میاب ہوئی تھیں،بتادیں کہ اترپردیش میں پسماندہ 17فیصد اور مسلمان19فیصد ووٹر ہیں،جس کے اتحاد سے وہ کامیاب ہوجاتی تھیں مگر مایاوتی کی قیادت والی بی ایس پی پچھلے کچھ انتخابات سے اپنے لوگوں (یعنی پسماندہ) کا ووٹ حاصل کر نے میں ناکام رہی ہیں اور وہ مسلمانوں کو زیادہ تعداد میں ٹکٹ دے کران کے ووٹ بھی کاٹنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ، اس کی وجہ سے مایاوتی کی بی ایس پی بھی کامیاب نہیںہوپاتی اورساتھ ہی مسلمانوں کا صرف بی ایس پی کو ووٹ دینے کی وجہ سے بے وقعت ہوتے ہیں۔میں یہ سب ویسے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ 2019کے لوک سبھا انتخابات کو اگر سامنے رکھ کر بات کی جا ئے تو یہ بات سب کے سامنے کھل کر آجائے گی کہ مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہیں ہوگاتوسیکولرجماعت کا ہی امیدوار کامیاب ہوگا۔2019کے پارلیمانی انتخابات میںسماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کے اتحاد کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ زیادہ تقسیم نہیں ہوا تو بی ایس پی نے مسلمانوں کے گڑھ کے ساتھ جہاں بھی تھوڑا سا اتحاد کودیگرذات کے ووٹ ملے تووہاں بھی مسلمانوں کے مکمل ووٹ حاصل کر کے10سیٹوںپرکامیابی حاصل کی۔ مثلاًبی ایس پی سے کنور دانش علی (امروہہ)،ملوک ناگر(بجنور)،افضال انصاری (غازی پور)،اتل کمار سنگھ (گھوسی)،شیام لال سنگھ یادو (جونپور)،سنگیتا آزاد(لال گنج)،گریس چند (نگینہ)،فضل الرحمان (سہارنپور)،رام شیرونی(سراوستی)اورامرچندر (شاہجہانپور) وغیرہ شامل ہیں جو بی ایس پی سے کامیاب ہوئے اور ان میں تقریباً تمام سیٹیں مسلم اکثریتوں والی ہیں،اسی طرح سماج وادی پارٹی سے بھی مسلم اکثریتوں والی سیٹوں سے امیدوار ،اکھلیش یادو(اعظم گڑھ)،ڈمپل یادو (مین پوری)،اعظم خاں (رامپور)، ڈاکٹر ایس ٹی حسن(مراد آباد) اورشفیق الرحمان برق(سنبھل) کامیاب ہوئے، اس کے علاوہ نہ تو یادو کے گڑھ میں بی ایس پی نے کچھ کارکردگی دکھا ئی اور نہ ہی سماجوادی پارٹی نے کوئی کرشمہ دکھایا دونوں پارٹیوں کے جتنے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر مسلم علاقہ یا وہاں بھی مسلم ووٹوں کی تعداد25فیصد سے زیادہ ہیں۔
سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے اتحادکی بات جائے تو 24ایسی سیٹیں ہیں جہاں اگر سماج وادی اور کانگریس پارٹی نے بہتر امیدوار اتارے توکامیاب یقینی ہے اور انہیں ان سیٹوں پرکوئی ہرا نہیں سکتا، ان میں10ایسی سیٹیں ہیں،جہاںاگر یکطرفہ مسلمانوں نے ووٹ دیا تو اس اتحاد کی جیت ممکن ہے،ان میں سہارنپور،مظفر نگر، بجنور،مرادآباد،رامپور،امروہہ، میرٹھ،بریلی، بہرائچ اورسراوستی شامل ہیں، اس کے علاوہ 14ایسی سیٹیں ہیں جہاںمسلمان اگر یکطرفہ ووٹ ڈالتے ہیں اور کچھ ووٹ دونوں پارٹیاں اپنے ریزرو ووٹ حاصل کر لیتی ہیں،جس کی امید بھی کی جارہی ہے توآسانی سے یہ سیٹیں پارٹیاں حاصل کر سکتی ہیں،ان میں باغپت، اعظم گڑھ،دیوریا،گورکھپور،بلیا، غازی پور،بنارس، جون پور،بدایوں،مین پوری، ایٹہ،اٹاوا،فرخ آباد اور بلند شہروغیرہ شامل ہیں۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ بی ایس پی گزشتہ کچھ انتخابات سے اپنے ریزروووٹ حاصل کر نے میں کامیاب نہیں ہوپا رہی ہے، مگر وہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر نے کے لیے کافی امیدوار میدان میں اتار دیتی ہے مگراس کو پسماندہ کاووٹ نہیں ملنے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپاتی اور اس کے اس طرح کرنے کی وجہ سے سیکولر جماعتوں کے امیدوار کامیاب نہیں ہوپاتے،اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب مایاوتی جان بوجھ کر کرتی ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کر سکیں اور سیکولر جماعتیں کامیاب نہیں ہوں گی تووہ مجبور ہوکر ان سے اتحاد کریں گی یااس کے پیچھے بی جے پی کی سیاست بھی ہوسکتی ہے جو مایاوتی کو ڈرا کر اس طرح کر نے پر مجبور کرتی ہے کیو نکہ اسے پتہ ہے کہ اگر مسلمانوں ووٹ تقسیم نہیں ہوا تو وہ اترپردیش میںصرف25سیٹیں حاصل کر پائے گی۔اس لیے مسلمانوں کواس مرتبہ سوچ سمجھ کر ووٹ کرنا ہوگا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS