اسد مرزا
’’حال ہی میں برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات (او این ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مسلم آبادی کی حیثیت کے بارے میں برطانیہ کے اندر اور باہر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔‘‘ برطانیہ کے حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں بے روزگاری کی سطح 16 سے 64 سال کی عمر کے 20 افراد میں سے ایک کے طور پر سب سے زیادہ تھی، اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس گروپ میں طلباء یا گھر یا کنبہ کی دیکھ بھال کرنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ تقریباً 2.6 ملین یعنی 26 لاکھ مسلمان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے اور جنہیں مکانات کی کمی کا سامنا بھی ہے۔ONS کے اعداد و شمار سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں دیگر مذہبی طبقات کی بہ نسبت مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ 6.7 فیصد بتائی گئی ہے۔ صرف 26 فیصد عیسائی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بے روزگاری کی سب سے زیادہ سطح ہے، لیکن مسلم کمیونٹیز کے لیے یہ تعداد 68 فیصد ہے۔ برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں عمر کے رجحانات، دوسرے گروہوں کے مقابلے میں، اعداد و شمار کا ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے، جس میں عام آبادی کے دیگر نوجوانوں کے مقابلے میں کم عمر مسلمان زیادہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مردم شماری میں جن لوگوں کی شناخت مسلم کے طور پر ہوئی ہے، ان میں سے گروپ میں طلباء کی شرح مجموعی آبادی میں دیکھی جانے والی شرح سے تقریباً دوگنی تھی۔
دوسری طرف 2021 کی مردم شماری میں 87.8 فیصد لوگ جنہوں نے خود کو ہندو بتایا تھا کہ وہ اچھی یا بہت اچھی صحت سے لطف اندوز ہیں، اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سکھوں (77.7 فیصد) کے پاس اپنے گھر ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہے، جبکہ مسلمانوں میں سے 45.6 فیصد ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس اپنا گھر موجود ہے۔ ایک چوتھائی مسلمان سماجی طور پر کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں جو کسی بھی مذہبی گروہ کے لیے سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً 87.8 فیصد ہندوؤں نے کہا کہ وہ ’’اچھی‘‘ یا ’’بہت اچھی‘‘صحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جبکہ مجموعی آبادی کے 82 فیصد نے ایسا ہی ردعمل ظاہر کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، مسلمانوں کے زیادہ بھیڑ والے گھروں میں رہنے کا امکان زیادہ ہے۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جنہوں نے خود کو ’کوئی مذہب نہ ماننے والوں ‘ کے طور پر نشان زد کیا، وہ، عیسائی اور یہودی سب سے کم بھیڑ والے گھروں میں رہتے ہیں۔ انفرادی طور پر دی گئی جانکاری پر مبنی اعداد و شمار کے مطابق، ہندوؤں کے پاس ’لیول 4 یا اس سے اوپر‘کی اہلیت کا سب سے زیادہ فیصد 54.8 فیصد ہے، جبکہ مجموعی آبادی کے لیے یہ شرح 33.8 فیصد ہے۔ تاہم صرف 31.6 فیصد عیسائیوں نے بتایا کہ ان کی تعلیم کی سطح ایک جیسی ہے۔ یہودیوں اور ہندوؤں میں ’منیجر، ڈائریکٹر یا اعلیٰ عہدیداروں‘ اور ’پیشہ ورانہ پیشوں‘ کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جبکہ محنت طلب پیشوں میں کام کرنے والوں کی شرح بدھ مت اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ ہے۔
ان معلومات کے آنے کے بعد ایک پریس بیان میں مردم شماری کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے، مسلم کونسل آف برطانیہ (MCB) نے کہا ہے کہ برطانوی مسلم کمیونٹیز پر اثر انداز ہونے والی غربت کی بین الاقوام وجوہات کے نتیجے میں زیادہ تر نوجوان کام کی تلاش میں تعلیم کو چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا کام حاصل کر سکیں اور اپنے خاندانوں کی مدد کرنے میں شامل ہوسکیں۔ وہ لوگ جو ملازمت کے بازار میں داخل ہونے کے قابل ہیں، منتخب کریئر کو آگے بڑھاتے ہیں، انہیں کام کی جگہ پر اسلامو فوبک تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک یکساں مواقع کا میدان قائم کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان برطانوی مسلمانوں کی حرکیات اور صلاحیت کی بنیاد پر خود کو ایک اسٹرٹیجک قومی اثاثہ ثابت کر سکیں۔ اگر ہم دھیان دیں تو ہمیشہ کی طرح، اعداد و شمار کی بنا پر مہم چلانے والوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ برطانیہ کی معیشت کو ’’یکساں اور مستحکم کرنے‘‘کے منصوبے کے تحت مسلم نوجوانوں پر توجہ مرکوز کرے۔ چونکہ دو تہائی سے زیادہ مسلمان ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاںبے روزگاری کی بلند ترین سطح کی اطلاع موجود ہے۔ اگر اس کے بجائے، ایک بار جب یہ اعداد و شمار عوامی طور پر جاری کیے گئے تو اس سے مسلم رہنماؤں اور تنظیموں کو برطانیہ اور دیگر جگہوں پر بھی مسلمانوں کی حیثیت کے بارے میں خود کا جائزہ لینے کا موقع دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی الزام حکومتی پالیسیوں اور سہولیات تک رسائی پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ اگر ہم دیکھیں تو تعلیم حاصل کرنے والوں میں مسلم نوجوانوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ لیکن بطور ایک قوم برطانوی مسلمان مجموعی طور پر اس سے فائدہ اٹھاتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اگر اس حساب کتاب میں ہمارے رہنما ٹھنڈے مزاج سے اس کردار کو نظر انداز نہ کرنے کی کوشش کریں، جو مذہبی اور سیاسی دونوں برادری کے رہنما ادا کر سکتے ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بجائے اس کے کہ مسلم آبادی کو اس کے اپنے فرائض کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور برطانیہ میں پیش کیے جانے والے مواقع سے بہترین فائدہ کیسے اٹھایا جائے، جو شاید کسی فرد کو بہترین مواقع کا میدان فراہم کرتا ہے، انہوں نے اپنی پرانی دھن کو جاری رکھا ہے۔ دراصل یہ صرف برطانیہ میں ہی نہیں بلکہ دیگر جگہوں پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مرکزی دھارے کا حصہ بننے اور میرٹ اور مقابلے کی بنیاد پر تعلیمی اور ملازمت کے مواقع تک رسائی کی کوشش کرنے کے بجائے، وہ حکومتوں کی طرف سے لقمہ حاصل کرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم برطانیہ میں مسلم آبادی کے درمیان تعلیمی اور سیاسی طور پر آگے بڑھنے والوں کی نشان دہی کریں تو یہ کوئی مشکل مشق نہیں بن سکتی ہے۔ ہمارے پاس اسکاٹ لینڈ کے نو منتخب فرسٹ منسٹر یعنی کہ وزیر اعظم اور اسکاٹش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما حمزہ یوسف کی حالیہ فتح ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس لندن کے میئر صادق خان، سابق چانسلر آف دی ایکس چیکر ساجد جاوید اور کنزرویٹو پارٹی کی سابق شریک چیئرمین بیرنس سعیدہ وارثی کے نام موجود ہیں۔ برطانیہ کے 2017 کے آخری پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کی ریکارڈ تعداد ہاؤس آف کامنس کے لیے منتخب ہونے کے لیے کامیاب ہوئی تھی۔ 10 خواتین سمیت 19 مسلم امیدواروں نے الیکشن جیتا تھا۔ لندن، برمنگھم، لیڈز، بلیک برن، شیفیلڈ، آکسفورڈ، لوٹن، اولڈہم اور روچڈیل کے میئر مسلمان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2022 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 443 مسلم کونسلرس مختلف شہروں میں منتخب ہوئے تھے۔ ہاؤس آف لارڈس کے 11 اراکین میں سے 5 بارینیسزہیں اور 6 لارڈس ہیں۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتوں کی طرف سے دی گئی سہولتوں پر افسوس کرنے کے بجائے مسلمانوں کو کمیونٹی کی سطح پر بہتر طریقے سے منظم ہونا چاہیے، تعلیمی فوائد پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے جس سے ان کے لیے بہتر روزگار اور مالی مواقع پیدا ہوں، اور جیسا کہ اوپر دکھائے گئے اعداد سے ظاہر ہے، اگر وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تو وہ سیاسی طور پر بھی بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن ایک بار منتخب ہونے کے بعد انہیں اپنی قوم کے سماجی، تعلیمی، مالی اور روزگار کے شعبوں میں کمیونٹی کی ترقی پر مزید کام کرنا چاہیے تاکہ جن شعبوں میں مسلمان پیچھے ہیں وہاں ان کی کارکردگی بہتر ہوسکے اور وہ زیادہ بہتر طور پر اس ملک کے لیے کام کرسکیں جہاں کے وہ شہری ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)