محمد حنیف خان
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی کانپور میں گزشتہ دنوں میٹنگ ہوئی جس میں مجلس عاملہ کا انتخاب عمل میں آیا،اس میٹنگ میں بہت سے مسائل زیر بحث آئے جن میں تبدیلیٔ مذہب بل 2020بھی شامل تھا،میٹنگ میںاس بل کے تحت درج مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ملک میں شرعی قوانین کا ضامن ہے،اسی طرح اگر کسی قانون کی وجہ سے مسلمانوں کو دشواریوں کا سامنا ہے تو اس صورت میں بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت سے گفت و شنید کرکے اس مسئلے کو حل کرے۔جس طرح سے اس قانون کے تحت اقلیتی طبقے کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں اور سماج میں نفرت کا ماحول بنایا گیا ہے،وہ واقعی لائق تشویش ہے، لیکن بورڈ کو صرف تشویش کے اظہار کو ہی کافی نہیں سمجھنا چاہیے،بلکہ اس کو عملی سطح پر اقدام کرنے چاہئیں کیونکہ اس قانون کی زد میں صرف مسلمانوں کو ہی لایا جا رہا ہے۔ تبدیلیٔ مذہب بل 2020کو اترپردیش میں نافذ ہو ئے ایک برس ہوگیا۔ 24نومبر2020کو یہ بل لایا گیا تھا، قانونی شکل اختیار کرنے اور اس کے نفاذ سے لے کر اب تک کے اس ایک برس کے عرصے میں اس بل کے تحت 108معاملات درج کیے گئے ہیں۔جن میں سے صرف ایک معاملے میں عیسائی مذہب اختیار کرنے کی کوشش پر مقدمہ درج ہوا ہے،باقی معاملات میں مسلمان ہی ملزم بنائے گئے ہیں۔ یہ مسئلہ جہاں فرد واحد ملزم کے لیے پریشانی کا سبب ہے، وہیں اجتماعی طور پر سبھی مسلمانوں کے لیے فکرمندی کا باعث بن گیا ہے۔ایسے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مسلمانوں کے اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے سامنے آنا چاہیے۔
ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ قانون سب کے لیے ہے اور یہ سچ بھی ہے لیکن کیا اس قانون کے تحت درج معاملات اس بات کی جانب اشارہ نہیں کرتے کہ یہ سب کے لیے ہونے کے بجائے صرف مسلم طبقہ کے خلاف استعمال کے لیے ہے۔جب کسی قانون کا استعمال یک رخی ہونے لگے تو وہ اجتماعی تشویش کا باعث ہونا ہی چاہیے، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ایک دن ایسا آئے گا جب ہر شخص کسی نہ کسی قانون کی زد میں آ رہا ہو گا جو یک رخی ہوگا۔یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جمہوریت میں اسٹیٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتابلکہ وہ ہر ایک کے حقوق کا ضامن اور محافظ ہے،لیکن اگر حکومت اجتماعیت کے بجائے ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کے لیے عمل کرنے لگے تو اس کے عمل کو غیرجانبدار کہا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ اعداد و شمار دیکھئے پھر اندازہ لگایئے کہ حکومت کا عمل کیسا ہے؟
تبدیلیٔ مذہب قانون2020 کے تحت ایک برس میں 108مقدمات درج کیے گئے ہیں،جن میں سے 72میں چارج شیٹ داخل کی جا چکی ہے جبکہ 24معاملات زیر تفتیش ہیں،11معاملے تو ایسے تھے جن میں پولیس شواہد ہی نہیں پیش کر سکی جس کی وجہ سے کلوزر رپورٹ لگا دی گئی،یعنی ان معاملات کو بند کر دیا گیا۔یوپی میں سب سے زیادہ 28معاملے بریلی زون میںدرج کیے گئے،23میرٹھ زون میں،آگر ہ میں 9اور لکھنؤ زون میں 9جبکہ پریاگ راج اور گوتم بدھ نگر میں سات سات معاملات سامنے آئے۔ صرف ضلع لکھنؤ میں چھ معاملے درج ہوئے۔اعداد و شمار کے مطابق 108معاملات میں257لوگ نامزد کیے گئے تھے جبکہ پولیس کی تفتیش میں مزید 83افراد کارروائی کے دائرے میں لائے گئے،جس سے ان کی تعداد 340 ہوگئی۔ ان میں سے 56قانون شکنی کے مجرم نہیں پائے گئے۔گزشتہ برس نو مبر سے 31اگست تک جو مقدمے درج ہوئے ہیں ان میں 31نابالغ ہیں، اس کے علاوہ 77خواتین کے بیانات بھی درج کیے گئے۔کچھ معاملات میں کلوزر رپورٹ درج ہوئی جو قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے بحث کا سبب بنے تھے۔گزشتہ برس دسمبر میں مراد آباد میں جس طرح ایک مسلم نوجوان اور ہندو لڑکی کو پولیس نے ہندوتو وادی تنظیموں کے ہنگامہ کی وجہ سے گرفتار کیا، اس نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔لڑکی بیان دے رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہے مگر پولیس اس کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ناری نکیتن میں لڑکی کو رکھنے کے دوران اس کا حمل بھی ضائع ہوگیا تھا،جس پر لڑکی نے الزام لگایا تھا کہ یہ ٹارچر کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔اسی طرح شاہجہانپور میں بجرنگ دل کے کنوینر رام لکھن ورما کی شکایت پر جنوری میں کچھ لوگوں کے خلاف عیسائیت اختیار کرنے کی کوشش کے الزام میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ان کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی پولیس نے ہندوتووادی تنظیموں کے بھڑکانے اور ان کی شکایت پر ہی مقدمے درج کیے۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب لڑکا مسلم اور لڑکی ہندو ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہو تو اس کو یہی تنظیمیں گھر واپسی سے تعبیر کرتی ہیں اور قانونی ادارے اسے لڑکے اور لڑکی کا قانونی حق تسلیم کرتے ہوئے ان کی مدد کرتے ہیں۔گزشتہ ایک برس میں جس طرح سے اس قانون کا نفاذ اور استعمال ہوا ہے،اس نے اقلیتی طبقہ کی پیشانیاں شکن آلود کردی ہیں، یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ادارے اس قانون کو یکطرفہ نافذ کر رہے ہیںجس کانتیجہ یہ ہوا کہ اب اپنی خوشی سے کوئی دوسرے طبقے میں شادی نہیں کر سکتا ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی دوسرے مذہب میں شادی ہی کیوں کرے؟ بالکل بات درست ہے،لیکن انسان ایک معاشرتی جاندار ہے،گھر سے لے کر دکان اور دفاتر تک ہر جگہ ساتھ ہوتا ہے،اب اگر ایسے میں کوئی مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی شادی کرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت آئین ہند نے دے رکھی ہے تو اس کو روکنے والے ہم اور آپ کون ہوتے ہیں۔لیکن یہ مسئلہ اتنا سیدھا اور آسا ن نہیں ہے، چونکہ قانون نے ہر مرد و عورت کو اپنا رفیق حیات اور شریک حیات منتخب کرنے کی آزادی دے رکھی ہے،ایسے میں کھلے عام اس قانون کی خلاف ورزی حکومتیں نہیں کرسکتی تھیں، اس لیے گزشتہ برس یہ قانون اترپردیش کی اسمبلی میں پاس کیا گیا تاکہ ہندو لڑکیوں کی ایسی شادیوں کو روکا جا سکے۔قانون کا نفاذ بتاتا ہے کہ وہ یکطرفہ ہو رہا ہے اور صرف اس لیے ہو رہا ہے تاکہ ایک مذہب کے حامیوں کو خوش کیا جاسکے، اس کے تحفظ کی نفسیات لوگوں میں پیدا کرکے ان کا ووٹ اور ان کی حمایت حا صل کرسکے۔ قانون کے ذریعہ ملے اختیارات کے ذریعہ ہی قانون شکنی کے طریقے نکالے جا رہے ہیں لیکن ان کی زمینی حقیقت ان کے عمل کی قلعی کھول دیتی ہے۔جس طرح سے اس طرح کے معاملات میں پولیس نے مقدمات درج کیے یا جس طرح سے ہندوتووادی تنظیمیں اس قانون کے نفاذ کے بعد سامنے آئیں اور ایسے جوڑوں کو پولیس کے حوالے کیا، اس سے یہی حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ حکومت کی منشا ہی یہی ہے کہ ان کو عدالت پہنچنے سے پہلے پولیس تک پہنچا دیا جائے۔
یہ معاملہ مسلم پرسنل لاء کے لیے اس لیے باعث تشویش ہونا چاہیے کیونکہ وہ واحد تنظیم ہے جو قانونی معاملات کو دیکھتی ہے،جیسا کہ اس سے قبل بتایاگیا کہ وہ اصلاً شرعی قوانین سے متصادم قوانین سے متعلق گفت و شنید کے ذریعہ راستے نکالتی ہے لیکن چونکہ اس قانون کا منفی اثر مسلمانوں پر پڑ رہا ہے،اس کے تحت مسلم ہی ماخوذ کیے جا رہے ہیں،ان کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے والے اس قانون کے تعلق سے سامنے آنا چاہیے اور اس کے نا مناسب استعمال کو بنیاد بنا کر عدالت عالیہ سے اس کے درست استعمال کویقینی بنانے کی گزارش کرنی چاہیے۔چونکہ یہ معاملہ جبریہ مذہب کی تبدیلیٔ سے متعلق ہے، اس لیے اپنی رضا سے جو لوگ مذہب تبدیل کر رہے ہیں یا مذہب تبدیل کرکے شادی کر رہے ہیں ان کے لیے آسانیاں ہونی چاہئیں۔ملک کا دانشور طبقہ بھی اس قانون کے نامناسب استعمال پر خاموش ہے، اس کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر قوانین کا نامناسب استعمال ہوا یا اسٹیٹ غیرجانبدار بن کر رول ادا نہ کرے تو پھر جمہوریت اور جمہوری قدروں کا کا کیا فائدہ؟اسی طرح اگر ریاست جمہوری ہے تو جمہوری قدروں کی پاسداری جتنا اس کا فریضہ ہے اس سے کہیںزیادہ ان دانشوروں کا فریضہ ہے جو ریاست کے خلاف اس کی جبریہ پالیسی پر آواز اٹھاتے ہیں۔مسلم بھی اسی ملک کے باشندے ہیں،اس کی تعمیر و ترقی میں ان کا بھی خون جگر لگا ہے،ایسے میں ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا بڑی ناانصافی ہوگی۔اس معاملے کو انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پر لینا چاہیے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی اسی تناظر میں اقدام کرنا چاہیے۔
[email protected]