پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اٹھارہویں لوک سبھاانتخابات میں مسلم امیدواروں کی تعداد میں غور طلب گراوٹ ہندوستانی انتخابی سیاست کی دودلچسپ سمتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اول یہی لگتاہے کہ سیاسی جماعتیں دراصل پیشہ ور ہوچکی ہیں ،انہوں نے فتحیاب ہونے کی صلاحیت کوہی امیدوار کے انتخابات کا پیمانہ بنالیاہے۔ پارٹیوں کا ٹکٹ تقسیم نظام اب کسی نظریاتی عہد سے نہیں چلتا۔ اس کے بجائے ذات ومذہب کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ صرف سیاسی وقار کے لیے کسی مسلمان کو ٹکٹ دینا اب عملی طور پر مشکل ہوگیا ہے۔ دوسرے، سیاست کے خاص اعلانیہ کی شکل میں ہندوتوا کے رنگ میں رنگی قومیت پرستی نے غیربی جے پی جماعتوں پر بھی اثرڈالاہے۔ یہ جماعتیں خصوصاً سیاسی اعتبار سے مسلم شناخت سے بچنے لگی ہیں۔ بی جے پی اپنی اب تک کی کوششوں سے یہ تصور پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ ماضی میں حزب مخالف نے مسلمانوں کو خوش کرنے کا کام کیاہے اوراس سے ہندوؤں کے مفاد کو نقصان پہنچاہے۔ کوئی بھی پارٹی نہیں چاہے گی کہ وہ صرف مسلم حامیوں کی شکل میں پہچانی جائے ویسے آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حاشیہ پر ہونے کا جواب تلاش کرتے ہوئے ان کے قانونی -آئینی ڈھانچے پر بھی ہمیں غور کرناچاہیے۔
ایک دور تھا جب جواہر لعل نہرو کی قیادت میں انگریزوں کی حکومت کے بعد بنی حکومت اس محاذ پر واضح تھی ۔ وہ مسلمانوں کو آئینی اقلیت کی شکل میں تسلیم کرنے اوران کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے فرقہ وارانہ سیاست سے چھٹکارہ پانے کی خواہش مند تھی۔ فرقہ وارانہ سیاست کے سبب ہی ملک تقسیم ہواتھا۔ اس متنازعہ مدعے سے نمٹنے کے لیے ایک غیرتحریری ضابطہ بنایاگیاتھا۔ شہریوں کے ایک گروپ کو رائے دہندگان کی شکل میں دیکھتے ہوئے نمائندگی کا سیکولر نظریہ وضع کیاگیاتھا۔ ویسے پیوپلس رپرزنٹیٹیو ایکٹ 1951 واضح کرتاہے کہ مذہب کو انتخابی طریقۂ کار سے الگ رکھناچاہیے۔ لاتعدادرائے دہندگان کے سیکولر نظریہ نے کم ازکم اصولی طور پر ایک امکان پیدا کیا کہ مسلم رائے دہندگان صرف مسلم امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ دیگر الفاظ میں اگرکہاجائے تونہرو وادی حکومت نے منتخب ادارہ میں علاحدہ مسلم نمائندگی کوبری طرح رد کردیا تھا۔ حالانکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اجتماعی مسلم مفادات کو نظرانداز کیاگیا۔ سیکولر ہندوستان میں مسلم شراکت کے لیے دواہم طریقہ اپنائے گئے۔سب سے پہلے راجیہ سبھا اورریاستی قانون ساز اسمبلی سے مسلم لیڈران کو لانے کاطریقہ آزمایاگیا۔ بعدازاں بھارتیہ جن سنگ اوربی جے پی بھی اپنے مسلم لیڈران کو راجیہ سبھا کے راستے سے ہی آگے لے کر آئی ۔ دوسرے ، سیکولرہندوستانی ثقافت کے ایک اٹوٹ پہلو کی شکل میں مسلم موجودگی کی تعریف کی گئی ۔ آئین میں اقلیتوں کو دئے گئے حقوق کے التزام کے ساتھ یہ اچھاہوا۔ حکومتوں نے بھی ملک کے سیکولر عوامی رویہ کو دکھانے کے لیے مسلم تہذیب اورواراثت کو سامنے پیش کیا۔
منتخب باڈیز میں علاحدہ مسلم نمائندگی سے انکار اورعوامی زندگی میں مثبت مسلم موجودگی کے درمیان کا حساب بہت نازک تھا۔ سیاسی جماعتیں انتخابی حساب سے کام کرتی تھیں۔ ایسے میں ضروری تھا کہ وہ چناوی مدعہ کی شکل میں مسلم مفاد کو سامنے لائیں۔ نہرو جی کے انتقال کے ٹھیک بعد یہی ہوا۔ اندرا گاندھی نے مذہب کی ایک نئی سیاست شروع کی، جس میں مسلم نمائندگی اورمسلم شراکت داری کے بیچ توازن کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ دراصل 2006 میںسچر کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلم نمائندگی پر بحث کو نئی طاقت ملی ۔ مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کی فطرت اوران کی پسماندگی کے مدعے نئے سرے سے کھڑے ہوئے۔جبکہ سماجی شمولیت کا خاکہ انتخابی سیاست کا رہنما اصول تھا۔ مسلم شراکت داری اورمسلم نمائندگی کے امتزاج نے یہ مزاج پید اکیاکہ آئینی سیکولرازم ایک علاحدہ مسلم سیاسی شناخت کے تحفظ سے تعلق رکھتاہے۔ اس غیرواضح حالت میں ہندتوا کی سیاست کی اس دلیل کو طاقت بخشی کہ مسلم پسماندگی اوراشتراک پر کوئی بحث علاحدگی پسندی کو ہی جنم دے گی۔ 2024 میں بی جے پی کی انتخابی مہم واضح طور پر اسی دلیل کا اظہار ہے۔اب سوال پیدا ہوتاہے کہ ہمیں مسلم سیاسی نمائندگی کے بارے میں کیسے بات کرنی چاہیے، خصوصاً اب جب مسلم شناخت غیربی جے پی جماعتوں کے لیے بھی سیاسی مسئلہ بن چکی ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے ایک طریقہ سمجھ میں آتاہے۔ سب سے پہلے نمائندگی کے خیال کو ہی جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم نمائندگی پر کسی بھی بحث میں مسلم دلتوں، مسلم خواتین اورغریب مسلمانوں کی تشویشوں کو قبول کیا جانا چاہیے۔ اس میں پسماندہ سیاست کا کردار بہت خاص ہے۔ دوسرے وسیع ادارہ جاتی نظام کی جمہوریت سازی ہمیں مسلم نمائندگی کا جائزہ لینے کیلئے صرف پارلیمان اوراسمبلیوں کو ہی نہیں دیکھناچاہیے۔ اس کے بجائے ہمیں سیاسی جماعتوں کے بشمول کردار اوران کے داخلی ڈھانچے کا بھی تجزیہ کرناچاہیے۔ کیا پارٹیوں کے پاس حاشیے پر پڑے گروپوں کو اپنی تنظیم میں شامل کرنے کا کوئی طے شدہ نظام ہے ؟ وہ الیکشن لڑنے کیلئے امیدوار کیسے طے کرتے ہیں؟ کیا جماعتوں میں باضابطہ تنظیم کا انتخاب ہوتاہے ؟یہ سوال اہم ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں ضرورت سے زیادہ مرکزیت پسند ہوگئی ہیں۔ ان کی جمہوری وسیکولر ساکھ پر کوئی بحث نہیں ہوتی ہے۔
بالآخر ہمیں جمہوری سیکولرازم کے آئینی اصولوں پرچلناچاہیے۔ ہندوستان کا آئین ایک ایسی سیاسی ثقافت کی بصارت رکھتاہے جہاں کسی طبقہ کا درد تکلیف اورحاشیہ پر ہونا پورے معاشرے کیلئے تشویش کا سبب بنناچاہیے۔ اقلیتی -اکثریتی سوال پر مہاتماگاندھی بالکل یہی دلیل پیش کرتے تھے۔ ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ کیسے غیرمسلم لیڈر حال تک مسلمانوں کی پریشانیوں میں کھڑے رہے ہیں۔ آج کے انتخابی ماحول میں موجودہ ’انڈیااتحاد‘ اس بات کی بہترین مثال ہے۔ یہ لوگ جوکچھ کررہے ہیں ،ہندوستان کے ہرطبقے کے مفاد میں ہے۔ ہاں ، مصلحتاً اِن لوگوں نے سب کچھ کرتے ہوئے نہ مسلمان کا ذکر کیا اورنہ اقلیت کا نام لیا۔ اس صحت بخش روایت کو اوربھی مضبوط کرناچاہیے۔ عام مسلمان یہ ضروری نہیں مانتے کہ صرف مسلم ایم پی اورایم ایل اے ان کی نمائندگی کریں۔ ہاں اتنا ضرورہے کہ وہ چاہیں گے کہ ان کی بات سنی جائے اورباوقار شہری کی شکل میں انہیں پہچاناجائے۔
[email protected]