محمد حنیف خان
ترقی کا خواب کون نہیں دیکھتا؟ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے خواہ وہ امیر ہو یا غریب، ہندو یا مسلم۔خواب دیکھنے کی کسی پرپابندی نہیں اور محنت کرنے والوں کا احترام بھی کیاجاتا ہے۔لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ترقی کا خواب دیکھنے والوں سے ان کے خواب چھین لیے جائیں،تکلیف کی شدت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ چھینے ہوئے اور آنکھوں سے نوچے ہوئے خواب غریبوں کے ہوں۔مسلمان معاشی سطح پر حد درجہ پسماندگی کا شکار ہیں،ہم حکومت کو اس کے لیے آسانی سے مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں لیکن ان لوگوں کا گریبان نہیں پکڑتے جو مسلمانوں اور اسلام کے نام پر ٹھگی کرتے ہیں۔غریبوں کے خوابوں پر شب خون مارتے ہیں،یہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے درمیان سے ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں چٹ فنڈ کا بہت بڑا کاروبار ہے۔اس کے ذریعہ بدعنوانی کے کئی بڑے معاملے رونما ہوچکے ہیں۔ 2013میں شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ سامنے آیا تھا۔اتر پردیش میں بھی بڑے کاروباریوں پر اس کے الزام عائد ہوچکے ہیںاور اب اتراکھنڈ میں اسلامی لین دین کے نام پر ایک بڑا غبن سامنے آیاہے۔چٹ فنڈ ایکٹ 1982کے مطابق چٹ فنڈ اسکیم کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا کئی افراد کسی معاہدے کے تحت ایک مقررہ رقم یا شے وقت مقررہ پر قسطوں میں جمع کریں اور طے وقت پر اس کی نیلامی کی جائے اور اس سے جو فائدہ ہو وہ لوگوں میں تقسیم کردیا جائے، اصول و ضوابط کے مطابق یہ اسکیم کسی ادارہ یا افراد کے ذریعہ جاننے والوں اور رشتہ داروں کے مابین چلائی جاسکتی ہے۔لیکن چٹ فنڈ کے نام پر اجتماعی سرمایہ کاری کو فروغ دیا گیا،جس کی شکل جمع پونجی کی طرح ہوگئی۔اس طرح ایک قانون اور ضابطے کا استعمال غبن کے لیے کیاجانے لگا۔چونکہ چھوٹی رقم غریب ہی جمع کرتے ہیں، اس لیے ان میں بیداری بھی نہیں ہوتی حالانکہ ریگولیٹری بورڈ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی)نے صاف طور پر محتاط کر رکھا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ کسی اسکیم یا شیئر میں سرمایہ کاری کا مشورہ نہیں دیتا اور نہ ہی کسی اسکیم میں شمولیت کی سفارش کرتا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا اور انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیا(ارڈا)بھی اسی طرح کی بات کہتے رہے ہیں۔اس کے باوجود لوگ اس طرح کی کمپنیوں یا نام کے بینکوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں۔
اتراکھنڈ میں کبیر میچول بینیفٹ ندھی لمیٹڈ نام کی کمپنی نے بھی ایسے ہی دھوکے بازی کی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ عمل اسلام،مسلمان اور غیر سودی یعنی شرعی لین دین کے نام پر ہوا ہے،اس لیے اس کی شناعت حددرجہ بڑھ جاتی ہے۔ہری دوار کے جوالا پور میں تقریبا ً25برس قبل ’’مسلم فنڈ‘‘ کے نام سے چٹ فنڈ کا یہ کھیل شروع ہوا تھا،جس میں اس وقت تقریباً 1300کھاتے تھے جن میں 250غریب غیر مسلم اور 1050مسلم کھاتے دار تھے۔یہ سبھی کھاتے دار حد درجہ غریب ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً 800کھاتوں میں پانچ سو روپے ہی جمع ملے ہیں۔یہی مسلم فنڈ بعد میں کبیر میچول بینیفٹ ندھی لمیٹڈ کے نام سے جانا گیا۔جس کی پاس بک میں جلی حروف میں لکھا ہے ’’آپ کی خدمت ہمارا اولین مقصد۔آپ کی بچت آپ کا مستقبل‘‘۔اس نعرے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم فنڈ چلانے والے انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں، ان کا مقصدغریبوں کے طرز زندگی میں تبدیلی اور خوشگواری لانے کے سوا کوئی نہیں۔چونکہ مسلمانوں کو وہ شرعی لین دین کے نام پر اپنے دام میں لاتے تھے،اس لیے وہ جمع رقم پر نہ سود دیتے تھے اور نہ ہی قرض دینے پر سود لیتے تھے۔لیکن قرض لینے کی صورت میں کھاتے دارکو بطور ضمانت زیور جمع کرنا ہوتا تھا۔اب تقریباً ڈھائی کروڑ روپے کے زیورات اور 1300کھاتے داروں کی رقم کے ساتھ فنڈ چلانے والا عبد الرزاق غائب ہے جس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ شرعی لین دین کے نام پر رقم جمع کرنے والا شخص اسی رقم سے غیر شرعی کاروبار کرتا تھا،وہ نہ صرف سرکاری و غیر سرکاری بڑے بینکوں میں یہ رقم جمع کرکے اس سے سود حاصل کرتاتھا بلکہ بڑی پونجی کی بنیاد پر وہ ان بینکوں سے قرض لے کر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتا تھا۔ عبد الرزاق نے غریبوں کی رقم سے اپنا ایک بڑا کاروبار کھڑا کر لیا اور اب فرار ہے۔اس فنڈ میں جمع کرنے والے افراد کف افسوس مل رہے ہیں اگرچہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یقین ہے کہ ان کاپیسہ واپس ملے گا،مل جائے اچھی بات ہے لیکن اب تک ایسا ہوا نہیں ہے۔
اسی طرح اب سے تقریباً پندرہ برس قبل اتر پردیش کے سرحدی ضلع بہرائچ میں بھی مسلم فنڈ اسی طرح سے غریبوں کی رقمیں لے کر غائب ہوچکا ہے۔اس مسلم فنڈ کے نام سے چلنے والے بینک میں بھی بے حد غریب افراد کے کھاتے تھے اور راتوں رات سب غائب ہوگئے۔جس میں شہر کی اہم شخصیات بھی شامل تھیں جن کی وجہ سے لوگوں کو لگتا تھا کہ ان کی رقم مرے گی نہیں مگر آج تک انہیں وہ رقم واپس نہیں ملی۔ بہرائچ میں ہی اسی طرز پر کام کرنے والے ملی فنڈ نے ضرور اپنے کھاتے داروں کی رقمیں واپس کی اور اس کے بند ہونے کے ایک دہائی بعد بھی یہ اعلان ہے کہ اگر کوئی شخص دستاویز لے کر آتا ہے اور ملی فنڈپر اس کا بقایا نکلتا ہے تو اس کی رقم واپس کی جائے گی۔فنڈ چلانے والوں کے وارثین آج بھی اس کے لیے تیار ہیں۔
ہمیں دوسرے نہیں اپنے ہی لوٹتے ہیں اور اسلام و مسلمان کے نام پر لوٹتے ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ اگر ترقی کرنا ہے تو تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔اس لیے تعلیم کے میدان میں بھی اقلیتوں کے نام پر خود مسلمان ہی مسلمانوں اور حکومتوں کو لوٹ رہے ہیں۔
مسلمانوں کے پاس جو عصری علوم کے ادارے ہیں، جن کا قیام مسلمانوں کومرکز میں لانے کے نام پر کیا گیا تھا، ان میں کچھ ایسے ہیں جو تعلیم یافتہ بنانے کے نام پر ان کا مالی،ذہنی اور علمی استحصال کر رہے ہیں۔یہ ادارے اور ان کے مالکان قوم کے بجائے بینک بیلنس کی فکر میں غلطاں وپیچاں ہیں۔حکومت ان اداروں کو اقلیتوں کو تعلیم یافتہ کرنے کے نام پر نہ صرف منظوری دیتی ہے بلکہ ان کو سبھی مراعات بھی دیتی ہے تاکہ وہ تعلیم میں پسماندہ اس طبقے کو تعلیم یافتہ بنا کر ان کومرکزی دھارے میں شامل کریں مگر چونکہ ان کے مقاصد ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا رویہ وہی ہوجاتا ہے۔حکومت نے تو یونیورسٹی کے قیام تک کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ ایسی کئی یونیورسٹیاں قائم بھی ہیں جن کے قیام میں حکومت کے تعاون کے ساتھ ہی مسلم ممالک سے بھی تعاون حاصل کیا گیا مگر آج وہاں مسلمانوں سے منسوب زبان کی ہی تعلیم نہیں دی جاتی اور داخلوں کے لیے موٹی موٹی رقمیں وصول کی جاتی ہیں،چونکہ مسلمانوںمیں غربت زیادہ ہے، اس لیے ہر شخص تو ان کی فیس ادا نہیں کرسکتا ہے، ایسے میںان کی جگہ غیروں کو موٹی رقمیں لے کر داخلہ دے دیا جاتا ہے۔یہی حال متعدد کالجوں کا ہے جہاں بی ایڈ کے ساتھ ہی دوسرے ایسے کورس چلتے ہیں جو سر کاری و غیر سرکاری ملازمتوں کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان اداروں میں مالی استحصال کے ساتھ ہی ذہنی استحصال بھی ہوتا ہے اور چونکہ ان کا مقصد پیسے کا حصول ہوتا ہے، اس لیے کلاس نہ کرنے کی پوری چھوٹ مل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے بھی بیگانہ ہی رہتے ہیں۔ایسے ترقی کیسے ممکن ہے۔ مسلمانوں کو ایسے مالی اور تعلیمی اداروں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینا چاہیے ورنہ وہ مراعات دیتی رہے گی اور یہاں قوم کے بجائے افراد اپنی ترقی کرتے رہیں گے اور پوری قوم جہالت اور غربت کے قعر مذلت میں پڑی رہے گی۔
[email protected]