محمد حنیف خان
نئی نسل نہ صرف والدین کے بڑھاپے کی لاٹھی اور ان کا سہارا ہے بلکہ وہ ملک کابھی مستقبل ہے۔نئی نسل، نئے جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے،جس کے لیے وہ انتھک محنت بھی کرتی ہے۔ہمارے بزرگوںکی سخت محنت سے ہی ملک یہاں تک پہنچا ہے لیکن جس محنت اور مشقت سے نئی نسل آگے بڑھ رہی ہے، شاید اس عمر میں ہمارے بزرگوں نے نہ کی ہو۔بچپن سے ہی کتابوں کا بوجھ اس کی پشت پر لاد دیاجاتا ہے۔اسکول کے ساتھ ہی ٹیوٹر اور پھر والدین ان بچوں سے ان کا بچپن چھین لینے جیسے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔اسکول سے واپسی کے بعد جس تنظیم و ترتیب سے ان کی زندگی گزرتی ہے، اسے بچپن تو کسی صورت میں نہیں کہا جاسکتا ہے۔بچپن میں تو بے فکری ہوتی ہے لیکن نئی نسل بوڑھوں سے زیادہ فکر میں ڈوبی ہوئی نظر آرہی ہے۔اسکول کے ایام ختم نہیں ہوتے کہ ان بچوں پر ایک ایسا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جسے کے وہ قطعی مکلف نہیں مگر معاشرے کی خواہشات ان کو سکون سے نہیں بیٹھنے دیتیں۔ بیشتر والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر اور انجینئر بنے، آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر ان کا نام روشن کرے اور معاشرے میں ان کا وقار قائم کرے۔اس کے ساتھ ہی ان کی ایک خواہش اور ہوتی ہے کہ جو وہ نہیں کرسکے ہیں، وہ ان کے بچے کرکے دکھائیںجس کی وجہ سے بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے۔ اگر معاملہ صرف اتنا ہی ہو تو بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، والدین اس قدر بچوں کے ذہن پر سوار ہوجاتے ہیں کہ ناکامی کے صرف امکان پر ایسا انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں جس سے والدین اور معاشرے کے سبھی خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے قبل ہی ٹوٹ اور بکھر جاتے ہیں لیکن اس ٹوٹ پھوٹ اور بکھراؤ سے جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے وہ کون ہے؟ والدین، معاشرہ، ملک یا وہ نئی نسل کا نمائندہ؟بادی النظر میں سب کا نقصان ہوتا ہے لیکن جس کی زندگی ختم ہوگئی، اس کے دکھ کو کوئی نہیں دیکھتا کہ کن حالات میں اس نے ایسا قدم اٹھایا۔
نیشنل کرائم ریکارڈبیورو (این سی آربی) کے اعداد وشمار کے مطابق 2021میں طالب علموں کی خودکشی میںگزشتہ پانچ برسوں(2016-20121) کے مقابلے 27فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2021 میں 13089طلبا نے خود کشی کی جن میں سے 7396لڑکے تھے جبکہ5693 لڑکیاں تھیں۔2016 میں 9478 طالب علموں نے خود کشی کی تھی، یہ تعداد 2019میں بڑھ کر 10335ہوگئی اور 2021میں 13089ہوگئی۔اس رپورٹ کے مطابق معاشی راجدھانی والی ریاست مہاراشٹر میں سب سے زیادہ 1834طلبا نے خود کشی کی،جن کی عمر 30برس سے کم تھی۔رپورٹ کے مطابق ان سبھی طالب علموں نے امتحانات میں ناکامی کی وجہ سے یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا۔مدھیہ پردیش میں 1308، تمل ناڈو میں 1246 اور کرناٹک میں855طلبا نے خودکشی کی تھی۔این سی آر بی نے 2020میں یہ رپورٹ کیا تھا کہ ہر 42منٹ میں ایک طالب علم خودکشی کرتا ہے،اس طرح 34طلبا یومیہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔
4اپریل2022 کو وزیر تعلیم دھرمندر پردھان نے پارلیمنٹ میں اپنے ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ 2017 سے2022 کے درمیان طلبا کی خودکشی کے 24واقعات رونما ہوئے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ انہیں یہ اطلاع یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کی جانب سے دی گئی ہے۔اہم بات یہ رہی کہ خود کشی کے اسباب کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔حکومت ہند نے طلبا کی آسانی کے لیے کئی طرح کے اقدام بھی کیے ہیں تاکہ وہ خودکشی جیسے اقدام سے باز رہیں کیونکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر ہی ایسا قدم اٹھاتے ہیں، اس لیے علاقائی زبان میں تعلیم کا بندو بست کیا گیا تاکہ تفہیم کی سطح پر طلبا کو دشواریوں کاسامنا نہ کرنا پڑے۔لیکن حکومت کے اس طرح کے اقدام سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا،اس کے لیے حکومت کو کچھ اور اقدام کرنے ہوں گے۔سب سے پہلے توکوچنگ کے اس کاروبار پر لگام لگانا پڑے گا جس نے کسی بھی امتحان میں کامیابی کی امیدرکھنے والوں کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔کوچنگ کا اتنا بڑا جال بُن دیا گیا ہے جس سے کوئی بھی شخص نکل ہی نہیں سکتا۔کوچنگ بھی اب معاشرے میں اسٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔اگر کسی کا بچہ کسی سستی کوچنگ یا سستے اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کو معاشرے کا کمتر شخص تصور کیا جاتا ہے۔کسی بھی جگہ آپ جائیں بچوں سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں ،ان میںمہنگے اسکول اور مہنگی کوچنگ سرفہرست ہے۔ ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں سے پریشان ہر شخص ہے لیکن اس کو کوئی ظاہرنہیں کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان متوسط طبقے کے ساتھ ،ان سبھی طلبا کا ہوتا ہے جو ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ متوسط طبقے کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں کی فیس ادا کرسکے۔ایسے میں اس کے بچے پہلے سے ہی احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں،کیونکہ ان کی تعلیم سرکاری اسکولوں میں ہوتی ہے جن کا معیار ناقص ہوتا ہے،اسی وجہ سے ان کی انگریزی پر گرفت بھی نہیں ہوتی ہے،جس کی وجہ سے اگر کوئی شخص کسی طرح سے انتظام بھی کردے تو اس کے بچے ان کوچنگ سینٹروں میں چل نہیں پاتے ہیں۔چونکہ متوسط اور خوشحال دونوں طبقات زر کثیر صرف کرتے ہیں، اس لیے ان کو صرف کامیابی چاہیے،وہ اپنے بچوں کا ذہن اور ان کی پسند کا بھی خیال نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنا پسندیدہ موضوع ان پر تھوپ دیتے ہیں اوراپنی خواہشات کے خول میں ان کے وجود کو بند کرنے کی کوشش کرتے ہیںکیونکہ انہیں اپنے بچوں کو معاشرے میں اسٹیٹس سمبل کی سیڑھی بناناہے، اس لیے ان بچوں کے ذہنوں پر والدین کی خواہشات اور ان کے خوابوں کے بوجھ حاوی ہوجاتے ہیں اور پھر ناکامی کی صورت میں یہ معصوم بچے خود کو موت کے حوالے کردیتے ہیں۔
تعلیم کیا ہے اور اس کی اہمیت کیوں ہے اور تعلیم کو کون کس طرح استعمال کر رہا ہے؟تعلیم کے حوالے سے یہ اہم سوالات ہیں۔تعلیم انسان کو ترقیات کی راہ دکھاتی ہے۔علم بشریات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس نے انسان کو جنگلوں اور غاروں سے نکال کر ایک نئی اور متمدن دنیا میں پہنچایا ہے۔یہ تمدن و ثقافت اسی تعلیم کی رہین منت ہے۔تعلیم کسی انسان کو معاشرے کا ایک ایسا انسان بناتی ہے جسے اپنی ہر طرح کی ذمہ داریوں کا احساس ہو اوراپنے ہر کردار کو وہ ایمانداری کے ساتھ ادا کرتا ہو۔لیکن اسے معاشرے کی الگ الگ اکائیاں بالکل الگ انداز میں استعمال کرتی ہیں۔معاشرہ تعلیم کو اس طور پر استعمال کرتا ہے کہ تعلیم نئی نسل کو ایک اچھا شہری بنائے، والدین تعلیم کو اپنی اور نئی نسل کی مادی ترقی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں،جب کہ حکومتیں اسی تعلیم کو اپنے اصول و نظریات کی بقا کے لیے استعمال کرتی ہیں ،اسی لیے حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ہی نصاب تعلیم میں تبدیلی پر غور و خوض بھی شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سماج کے مصلحین اور اس کی بھلائی چاہنے والی شخصیات اسی تعلیم کو بیداری اور آزادی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔یعنی معاشرے کی ہر یونٹ اور ہر اکائی تعلیم کو اپنے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اہداف کے مطابق نتائج بر آمد ہوں۔ان سب کا بوجھ کسے برداشت کرنا ہوتاہے؟سوائے طالب علموں کے اور کوئی نہیں ہے جو ان سب کا بوجھ برداشت کر رہا ہو۔اس پریشانی کی وجہ سے ہی تعلیم غیرمتوقع طوپر معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی جارہی ہے کیونکہ جس طرح سے طلبا کے ذہنوں پر بوجھ ہے، اس میں ذرا سی بھی ناکامی کے امکان کی صورت میں طلبا انتہائی قدم کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔چونکہ ہمارے یہاں تعلیم کو انسان بنانے کا ذریعہ تصور کرنے کے بجائے اسے روزگار کے دروازے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس لیے معاملات مزید سنگین ہوجاتے ہیں۔اس سے بھی سنگین معاملہ اس وقت ہوجاتا ہے جب ان طلبا کے والدین تعلیم اور اس کے ذریعہ نوکری کے حصول کو سوسائٹی میں اسٹیٹس سمبل کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ان کے خواب کا بوجھ طلبا کے ناتواں کاندھوں کو اتنا بوجھل کردیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا بوجھ اتار پھینکنے جیسا قدم اٹھا لیتے ہیں۔
[email protected]