محمد فیاض عالم قاسمی
انسان جب بلوغت کی دہلیزپر قدم رکھتاہے، اسی وقت سے اس کے والدین کےذہن دماغ میں اس کے لیے گھر بسانے کی فکر سوار ہوجاتی ہے،اگر لڑکاہے تو خفیہ طورپر بہو تلاش کرنے لگتے ہیں اوراگر لڑکی ہے تو دامادکی تلاش میں متفکررہتےہیں، پھر جوں جوں ان کی جوانی پروان چڑھتی ہے تو ان کی یہ فکر اورگہری ہوجاتی ہے،اب علانیہ طورپربھی وہ اپنے دوست واحباب اوررشتہ داروں سے اس کاتذکرہ بھی کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے بیٹے یابیٹی کےلیے کوئی مناسب رشتہ ہوتوانھیں ضرورباخبر کیاجائے۔دوسری طرف جوان لڑکے اورلڑکیاں بھی اپنی شریک حیات کے انتخاب میں سرگرداں رہتے ہیں۔مناسب رشتہ کامطلب لوگوں کی سوچ وفکر کے اعتبارسے الگ الگ ہوتاہے۔کسی کےنزدیک لڑکی خوبصورت اور خوب سیرت ہو،کسی کے نزدیک لڑکی کے گھر والے مالدار ہوں، اسی طرح لڑکےکےتعلق سےبھی سوچ وفکر مختلف ہوتےہیں ، کسی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ لڑکابیرون ممالک میں برسرروزگارہو،یاسرکاری نوکری کرنے والاہو، مگر شریعت کی نظر میں مناسب رشتہ کامطلب کچھ اورہے، اس مضمون میں اسی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
لڑکی کاانتخاب:گھر کوبنانےاوربگاڑنے میں ایک عورت بنیادی کردار اداکرتی ہے،اس لئے اس کے انتخاب میں خوب غور وفکر کی ضرورت ہے۔اگر اپنی شریک حیات کاانتخاب قرآن وسنت کے بتائے ہوئےمعیار کے مطابق کیاجائے تو گھر چین وسکون کی آماجگاہ بن سکتاہےورنہ جہنم کانمونہ بھی بن سکتا ہے،حدیث میں عورت کے انتخاب کرنے کاجو معیار بتایاگیاہے،وہ درج ذیل ہے:
لڑکی دیندارہو: نبی کریم ؐ نےارشادفرمایاکہ چارچیزوں کی وجہ سے کسی عورت سے نکاح کیاجاتا ہے، اس کے مال ودولت کی وجہ سے،اس کے حسب ونسب کی وجہ سے ، اس کے حسن وخوبصورتی کی وجہ سےاوراس کی دینداری کی وجہ سے مگر تم دینداری کی بنیادپر نکاح کرکےدنیاوآخرت میں کامیابی حاصل کیاکرو۔(صحیح بخاري:٥٠۹۰عن ابی ہریرۃ)
اگر عورت دینداراور نیک چلن کی حامل ہےتو پورے گھر کو صحیح رخ دے سکتی ہے،بچوں کی تعلیم وتربیت اچھی طرح کرسکتی ہے،خود اپنااوراپنے شوہر کابلکہ پورے خاندان کانام روشن کرسکتی ہے اوراگر خدانخواستہ بے راہ رو ہے تو پورے خاندان ہی نہیں،بلکہ پورے محلہ کو بدنام بھی کرسکتی ہے۔اس لیے لڑکی کےانتخاب میں اس کی پاکدامنی، اور دینداری کو معیار بنانا چاہئے۔عورت کےدین دار ہونے کامطلب یہ نہیں ہےکہ صرف صوم وصلاۃ کی پابندہو،بلکہ مطلب یہ ہے کہ فرائض وواجبات کو اداکرنے والی ہو،سنتوں کی پابندہو،مستحب امورکو بھی حتیٰ الوسع اداکرنے والی ہو،تلاوتِ قرآن اورتسبیحات کی دلدادہ ہو، اخلاق وکردار اچھے ہوں،باادب اورباحیاہو،بڑوں کاادب واحترام کرنے والی اورچھوٹوں پر شفقت کرنے والی ہو،صبر وتحمل کرنے والی ہو،پردہ میں رہنے والی ، اپنے شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والی ، ان کی خدمت کو سعادت سمجھنے والی ،گھریلو کام کاج حسن نیت اورخوشی بخوشی انجام دینے والی،پڑوسیوں کے حقوق سے واقف ہو ،بات بات پر غصہ کرنے والی اور جھگڑاکرنے والی نہ ہو،غیرمحرم سے بات کرنے والی نہ ہو،فیشن ایبل کپڑے نہ پہننے والی ہو،آج کے ماحول میں زیادہ خرچہ کرنے والی نہ ہو،اپنے شوہر کی عزت وآبراوراس کے مال دولت کی حفاظت کرنےوالی ہو۔معاملات میں پکی ہودوسروں کے حقوق اداکرنے والی ہو۔ایسی عورت کو دیندار عورت کو کہاجاتاہے، اگر گھر کی ملکہ ایسی ہوگی ہوتو یقیناًگھر کے دیگر افراد اورایسی عورت سے ہونے والی اولادبھی نیک اورصالح ہوگی،جو نہ صرف دنیامیں خیر وبرکت کاباعث ہوگی، بلکہ آخرت کے لیےبھی سرمایہ نجات ہوگی۔
ماں باپ کااثر ان کے بچوں پر پڑتا ہے، بچے بھی ان کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں،ماں اولادکے لیے پہلی درسگاہ ہوتی ہے،اس لیے لڑکی کے انتخاب میں اس کی پاکدامنی،اوردینداری کو معیار بنانا چاہئے ۔اس کے برخلاف اگر جہیز کی لالچ میں لڑکی والوں کی مالداری کو معیار بنایاگیاتو مال چوں کہ آنے جانے والی چیز ہے،اس لیے جہیز میں ملنے والی اشیاء بھی ایک دن ختم ہوجائے گی اورپھرمیاں بیوی میں دڑاریں پیداہونے لگیں گی،نیز جہیز کی خواہش رکھنے یااس کامطالبہ کرنے کی وجہ سےداماد بیوی کے میکہ والوں کی نظروں سے گر جائے گا۔
محبت کرنے والی ہو: ہر انسان محبت کا بھوکاہوتا ہے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرااس پر اپنی محبت نچھاورکرے،محبت بھرے دوبول بولے ، جب شوہر باہر کے کام کاج سے تھکاہاراگھر واپس آتاہےتو اس وقت پیش کردہ پانی کاایک گلاس اس کے خشک رگوں کوسیراب کردیتاہے۔ اسی طرح بیوی کی محبت کےدوبول اس کے وجود میں کیف وسرورپیداکردیتے ہیں ۔اس کے دل کوسروراوردماغ کو سکون پہونچاتے ہیں۔
علامہ حصکفی نے لکھاہےکہ عورت مردسے عمر میں چھوٹی ہو،حسب ونسب اور مال ودولت میں مر د سے کم تر ہو،جبکہ ا دب واخلاق ،تقویٰ اورحسن وجمال میں مردسے بڑھ کرہو۔(درمختارعلی ردالمحتار:٣/۸)
زیادہ بچےجننے والی ہو: نکاح کامقصد نسلِ انسانی کی بقاء اورامت محمدیہ کےافراد میں اضافہ کرنابھی ہے، اس لیے نبی کریم ؐنے ایسی عورت سے نکاح کرنےکی ترغیب دی ہے،جو بہت زیادہ بچے جننے والی ہو،ایک صحابی نےآپؐسےپوچھاکہ اے اللہ کےرسولؐ! ایک حسب ونسب اورحسن وجمال والی عورت پر میںفریفتہ ہوگیاہوں ،مگر وہ بچہ نہیں جنے گی تو کیامیں اس سےنکاح کرلوں ؟آپؐ نےمنع فرمایااو ر کہا کہ بہت زیادہ محبت کرنے والی اوربہت زیادہ بچہ جننے والی سےنکاح کرو۔(ابوداؤد:٢٠٥٠)
ہرجوان مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی شریک حیات بھی جوان اورہم عمر ہو ،دونوں کے اندر شرم وحیاہو،تاکہ دونوں اپنی ازدواجی زندگی کاآغاز نئے تجربات سے کریں،دونوں کے اندر حجاب ہواور وہ حجاب دھیرے دھیرےدرمیان سے ہٹے۔حضرت جابرؓ سے آپؐنے پوچھاکہ اے جابر کیاتم نے نکاح کیاہے، انھوں نے کہاکہ ہاں ، تو آپ نے پوچھاکہ بیوی کنواری ہے یاشوہر دیدہ ،یعنی بیوہ یامطلقہ؟ تو انھوں نے کہاکہ شوہر دیدہ، آپؐ نے کہاکہ کنواری سے کیوں نہیںکیاتاکہ تم اس سے کھیلتے اوروہ تم سے کھیلتی!(صحیح بخاری: ٥٠۷۹)۔ کنواری سے نکاح کرنااعلیٰ درجہ ہے،مگر بیوہ سے نکاح کرنے کی بھی فضیلت وارد ہوئی ہے،خود نبی کریم ؐ کی ایک بیوی کے علاوہ ساری بیویاں بیوہ تھیں،خودآپ ؐ نےپچیس سال کی عمرمیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے شادی کی جبکہ ان کی عمرچالیس سال تھی اوروہ بیوہ تھیں۔
لڑکے کاانتخاب:عموماًلڑکے کے انتخاب میں صرف اس بات کودیکھا جاتاہے لڑکاکتناکماتاہے، حالانکہ شریعت کی روشنی میں صرف اسی کو معیار بناناصحیح نہیں ہے ،نبی کریمؐ نے ارشادفرمایاکہ اگر تمہاری لڑکی کے لیے کوئی ایسارشتہ آئےجس کے اخلاق اوراس کی دینداری سےتم مطمئن ہوتو اپنی لڑکی کانکاح کرادو۔ ورنہ زمین میں فتنہ پھیلے گااورفساد برپاہوگا۔(سنن ترمذی:١٠۸٥)
لڑکے کے دینداراورحسن اخلاق کےحامل ہونے کامطلب صرف یہ نہیں ہے کہ لڑکاصوم وصلاۃ کاپابند ہو،بلکہ فرائض اداکرنے والا، سنت کاپابند ہو،سنن ومستحبات پر بھی عمل کرنے والاہو، اپنی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہو،بیوی کے حقوق کوبحسن وخوبی اداکرسکتاہو،فاسق وفاجر نہ ہو،حسن اخلاق و کردار کاپیکرہو، کسب معاش کے لیے تگ ودوکرنے والاہو،محنتی اورجفاکش ہو،بیوی بچوں پر خوش دلی سے خرچہ کرنے والاہو،لالچی اوربخیل نہ ہو،جری اوربہادر ہو،لاپرواہ اورنکمانہ ہو۔بیوی کی عزت وآبروکی حفاظت کرنے والاہو،بیوی کے ناز ونخرے برداشت کرنےوالاہو،بیوی پر ظلم کرنے والانہ ہو۔گالم گلوچ اورمارپیٹ کرنے کاعادی نہ ہو۔اگرلڑکا دیندار اور حسن اخلاق کاحامل ہوگا، تو وہ ہر میدان میں کامیاب ہوگا،جہیز کامطالبہ نہیں کرے گا،بیوی اوراس کے میکہ والوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئےگا،ان کی عزت کرے گا، بیوی کے حقوق کواداکرے گا۔
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو محض مالدار لڑکےکے انتظارمیں اپنی جوان بیٹیوں کوبٹھارکھتے ہیں،اوران کی زندگی کااہم ترین حصہ یوں ہی لڑکا دیکھنے اوردِکھانے میں گزر جاتاہےاورنوبت یہاں تک پہونچ جاتی ہےکہ اخیر وقت میں کسی بھی طرح کاکوئی بھی لڑکاانھیں شادی کرنے کے لیےتیارنہیں ہوتاہے۔یہاں یہ واضح کرنابھی مناسب معلوم ہوتاہےکہ ان صفات عالیہ کےہونے کایہ مطلب نہیں ہے وہ کہ سو فیصد موجود ہوں، بلکہ مقصد یہ ہےکہ اپنے شریکِ حیات کے انتخاب کرنے میں ان چیزوں کوملحوظ رکھاجائے۔
نکاح سے قبل شریک حیات کو دیکھنا:رشتہ نکاح کی پائداری اس بات پر منحصر ہےکہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کس قدر پیارو محبت ہے،اس لیے شریعت نےلڑکااورلڑکی دونوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کو دیکھ لیں،بعض علاقوں میں منگیتر کودیکھنابہت بڑاعیب سمجھاجاتاہے،بلکہ ایسے لڑکوں اورلڑکیوں کواپنے ماں باپ کانافرمان،ان پر بھروسہ نہ کرنے والا سمجھاجاتاہے۔حالانکہ شریعت کی روشنی میں یہ رویہ غلط ہے، قدرت نے ہر ایک کے اندر خواہشات وجذبات اورپسندیدگی کی صفات رکھی ہیں اوریہ مختلف ہوتی ہیں،اس لیے شریعت میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ جن کے درمیان نکاح ہونے والاہے،و ہ ایک دوسرے کو دیکھ لیں،تاکہ ان کی خواہش اورپسند کے مطابق ہےیانہیں نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی معلوم ہوجائے۔حضرت مغیرہ بن شعبۃ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کسی عورت کو نکاح کاپیغام دیاتوآپ ؐنےان سےفرمایا کہ تم اس عورت کو دیکھ لو، اس سے دونوں کے درمیان محبت پیداہوگی اوررشتہ میں پائداری آئے گی۔(سنن ترمذی: ١٠۸۷)۔اگر شکل وصورت سےدونوں ایک دوسرے کوپسند ہوں تو دونوں کےدل میں دوسرے کی محبت جاگزیں ہوجائے گی،اوراگرخدانخواستہ پسند نہ ہوتو نکاح کرنے سے رک جائیں گے۔کہیں ایسانہ ہوکہ اولیاء اپنی مرضی سے نکاح کرادیںاوردونوں میاں بیوی یاان میں سے کوئی ایک اس نکاح سے خوش نہ ہو،یادونوںایک دوسرے کودیکھانہ ہواوراتفاق سے شکل وصورت ان کی پسند کی نہ ہو،تودونوں کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔دونوں کے دل میں دوسرے کے خلاف نفرت وکدورت پیداہونے لگے گی،اور اختلافات رونماہونے لگیں گے،حتیٰ کہ ایسی صورت میں رشتہ نکاح کے ٹوٹ جانے کاقوی امکان بھی ہے۔
دوسرے کی مخطوبہ کو پیغام دینا:نبی کریم ؐ نے ارشادفرمایاکہ اگر کسی نےکسی کو نکاح کاپیغام دیدیاہے تو جب تک اس کی طرف سے واضح انکار نہ آجائےاس وقت تک تم اس کو پیغام نہ دو۔(صحیح مسلم:١٤١٢)۔مگرافسوس کہ ہمارے معاشرے میں یہ وباء بھی عام ہوتی جارہی ہے کہ اگر کسی کے یہاں کسی نے پیغامِ نکاح بھیجاتو اس کو توڑنےکی کوشش کی جاتی ہے کہ رشتہ اس کے ساتھ نہ ہوکر فلاں کےساتھ ہوجائے یاکسی کے ساتھ بھی نہ ہو، یہ انتہائی حاسدانہ اورظالمانہ رویہ ہے، جس سے معاشرہ کو پاک کرنا ضروری ہے۔
محمد فیاض عالم قاسمی: شریکِ حیات کاانتخاب کیسے کریں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS