غزہ: حماس کے زیرِانتظام غزہ کی وزارت داخلہ کے ترجمان ایاد البوزوم نے انسانی اور ماحولیاتی بحران کا انتباہ دیتے ہوئے آج ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے ایک غیرمعمولی حملے کے جواب میں 23 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ تک خوراک اور ایندھن پہنچنے سے روکنے کے لیے علاقے کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، اسرائیلی حکام کے مطابق ان جھڑپوں کے دوران اب تک 1300 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسرائیل نے اپنی تاریخ کے مہلک ترین راکٹ حملے کا سامنا کرنے کے بعد غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری شروع کردی اور تقریباً 2 ہزار 750 افراد مار ڈالے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، وزارت صحٹ کے مطابق حملوں میں 9 ہازر 700 فلسطینی زخمی ہوئے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے غزہ میں جنگ بندی کی خبروں کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ حماس کے ساتھ تصادم کے 10 روز بعد امداد پہنچانے اور غیر ملکیوں کو مصر فرار ہونے میں مدد ملے گی۔
نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکیوں کو نکالنے کے بدلے غزہ میں فی الحال کوئی جنگ بندی نہیں کی جارہی اور نہ ہی انسانی امداد کی اجازت دی جارہی ہے۔
تاہم اسرائیلی فوج نے غزہ کے اندر ایسے راستوں پر حملہ کرنے سے گریز کرنے کا وعدہ کیا ہے جو غزہ کے شمال سے جنوب تک محدود وقت کے دوران صبح 8 بجے سے دوپہر تک لوگوں کے انخلا کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: فلسطین اسرائیل تنازع میں ہلاک ہونے والے روسی نژاد کی تعداد 16 ہوئی
قبل ازیں میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیل، مصر اور امریکا نے اتفاق کیا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان رفح کراسنگ کو آج کئی گھنٹوں کے لیے کھول دیا جائے گا تاکہ غیر ملکی شہریوں کو فرار ہونے اور امدادی سامان وہاں پہنچانے کی اجازت دی جائے۔
(یو این آئی)