سہولتیں زیادہ مگر ووٹنگ کم: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

بھارت کی 18 ویں لوک سبھا کے لیے انتخابی عمل کی تکمیل کے ساتھ ہی ایک سوال پھر کھڑا ہوا کہ آخر بڑے شہروں میں رہنے والے بالخصوص متمول علاقوں کے لوگ ووٹ کیوں نہیں ڈالتے جبکہ ان کے علاقوں میں عوامی سہولیات، خوبصورتی اور شکایات پر توجہ حکومتیں ترجیحی بنیاد پر دیتی ہیں۔ دہلی ہو یا قومی راجدھانی خطے کے دو علاقوں فریدآباد اور گروگرام یا پھر ملک کے دوسرے بڑے شہر، ووٹنگ کے اعداد و شمار سامنے آئے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ جن علاقوں میں زیادہ پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ رہتے ہیں، وہاں سب سے کم ووٹنگ ہوئی ہے۔ لوک سبھا کے تحت جن اسمبلی حلقوں میں ترقی، صفائی اور شہری سہولتوں کے لیے سب سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے، وہاں کے لوگوں کو رائے دہی کے فریضے کی سب سے کم فکر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دولت مند طبقہ یہ سوچتا ہو کہ وہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، اس لیے اس کے علاقے میں سرکاری پیسے سے زیادہ دیکھ بھال ہونی ہی چاہیے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی صنعت کار یا تاجر زیادہ کماتا ہے تو اسی ممالک کے وسائل سے ہی کماتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں جمہوریت ہے اور جمہوریت تبھی ہے جب زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی پسند کی حکومت چننے میں تعاون دیں،ایک ووٹ کی شکل میں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جو شہر جتنا بڑا ہے، جہاں ترقی اور عوامی سہولیات کے نام پر سرکاری بجٹ کا زیادہ حصہ خرچ ہوتا ہے، جہاں فی کس آمدنی وغیرہ اوسط سے بہتر ہے، جہاں سڑکیں، بجلی، پانی اور نقل و حمل دوسری جگہوں سے بہتر ہوتے ہیں، وہیں کے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلے۔ چنئی سینٹرل سیٹ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندان رہتے ہیں، وہاں ووٹنگ کا تناسب صرف 53.91 فیصد رہا۔ بنگلور سینٹرل اور ساؤتھ بھی تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ اور متمول لوگوں کے علاقے ہیں اور وہاں بالترتیب 52.81 اور 53.15 فیصد لوگ ہی ووٹ ڈالنے نکلے۔ یہی حال ممبئی ساؤتھ کا رہا جہاں ملک کے بڑے صنعتکار اور فلمی ستارے رہتے ہیں، یہاں ووٹنگ 47.7 فیصد ہی ہوئی جبکہ شہر کا سب سے صاف ستھرا اور جگمگاتا پارلیمانی حلقہ یہی ہے۔ حیدرآباد میں 45.07، بہادرپیٹ میں47.4، نامپلی میں 45.3 اور جبلی ہلز میں 45.65 فیصد ووٹنگ ہوئی۔
راجدھانی دہلی میں لوک سبھا کی سات سیٹیں ہیں، جن میں نئی دہلی کو سب سے باوقار کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں صدر جمہوریہ سے لے کر بہت سے ممبران پارلیمنٹ، زیادہ تر اعلیٰ بیوروکریٹس، بڑے تاجر وغیرہ رہتے ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی اس سیٹ پر سب سے کم صرف 51.98 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ اس میں بھی سب سے کم صرف 48.84 فیصد ووٹ سب سے دولت مندکہی جانے والی گریٹر کیلاش اسمبلی میں پڑے۔ دہلی میں سب سے زیادہ ووٹنگ شمال مشرقی دہلی میںہوئی جس کا ایک بڑا حصہ بے گھر اور کچی کالونیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں 62.87 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ دہلی کی واحد اول زمرے والی لوک سبھا سیٹ یہی ہے۔ ووٹنگ کے دن جب آسمان سے آگ برس رہی تھی تب سگنیچر برج کی طرف جانے والی سڑک سے جعفرآباد سے آگے کراول نگر روڈ تک ہر طرف سڑک پر ٹریفک بہت زیادہ تھا اور کوئی سایہ نہیں تھا۔ کیا عورت، کیا مرد لمبی قطاریں تھیں۔ ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹنگ کی رفتار اتنی سست تھی کہ لوگ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک قطار میں کھڑے رہے۔ جب جمنا وہار کی مرکزی سڑک سے مصطفی آباد میں داخل ہوتے ہی تنگ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سڑک کے بیچوں بیچ کوڑے دان اور تعفن، تجاوزات، دونوں طرف کی تنگ گلیوں پر فسادات کے بعد نصب مضبوط دروازے، کم سے کم سہولتیں ہیں لیکن ووٹنگ میں کوئی کوتاہی نہیں۔ ایک بہتر کل کی امید یا جمہوریت پر یقین یا اسی پر امید کہ جو کچھ بھی ہو، ان غریب، محنت کش لوگوں نے جم کر ووٹ ڈالے۔ یہاں بھی سیلم پور، مصطفی آباد، سیما پوری جیسی جھگی جھونپڑیوں والے علاقوں میں 60 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ سرکاری عمارتوں اور متوسط طبقے کے تیمارپور میں صرف 54.58 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ جنوبی دہلی میں صرف 55.15 فیصد ووٹ پڑے اور اس میں بھی پالم کے علاوہ کہیں بھی ووٹنگ کی شرح 60 فیصد تک نہیں پہنچی۔ کالکاجی جیسی پرانی ایلیٹ اسمبلی میں سب سے کم 53.22فیصد ووٹ ہی پڑے۔

چاندنی چوک لوک سبھا حلقے کی تنگ گلیوں والے مٹیا محل، بلی ماران، شکور بستی میں 60 فیصد سے زیادہ لوگ ووٹ دینے نکلے تو ماڈل ٹاؤن میں 49.80، شالیمار باغ میں 57.24 اور آدرش نگر میں 53.76 فیصد لوگ ہی گھرسے نکلے۔ یہاں بھی واضح طور پر دیکھا گیا کہ اونچے گھرانوںسے ووٹنگ کم ہوئی۔
ہریانہ کی دس سیٹوں میں سے جن دو جگہوں پر سب سے کم ووٹنگ ہوئی، وہ ہیں دہلی کی توسیع کہے جانے والے فریدآباد اور گروگرام۔ فرید آباد کے دیہی علاقے ہاتھن میں 70 فیصد، پلول اور پرتھلا میں 65 فیصد ووٹ ڈالے گئے، لہٰذا وہاں اعداد و شمار 60.20 تک پہنچ پائے، ورنہ فرید آباد شہر کی اشرافیہ کی بستیاں کہلانے والے علاقوں میں ووٹنگ 55 فیصد سے نیچے رہی۔ گروگرام سیٹ پر بھی نوح، پنہانا، پٹودی، بادشاہ پور جیسے دیہی علاقوں میں 65 فیصد سے زیادہ ووٹنگ ہوئی۔ یہاں شہر میں تو بمشکل 55 فیصد ہی ووٹ ڈالے گئے۔ غازی آباد اور نوئیڈا میں بھی ووٹ فیصد وہیں ٹھیک رہا جہاں ضرورت مند لوگوں کی گنجان آبادی ہے، ورنہ بھرے پیٹ کے محلوں نے تو مایوس ہی کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کے تحفظ کی ذمہ داری سماجی و معاشی طور پر کمزور لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے؟ اس کے بعد بھی جب ترقی، خوبصورتی اور نئی سہولتیں دینے کی بات آتی ہے تو ترجیح ان ہی علاقوں کو دی جاتی ہے جہاں کے لوگ کم ووٹ دیتے ہیں۔

ووٹنگ کو لازمی کرنا بھلے ہی فی الحال قانونی طور پر ممکن نہ ہو لیکن اگر دہلی این سی آر سے یہ شروعات کی جائے کہ ترقیاتی اسکیموں کے لیے ان ہی اسمبلی حلقوں کو ترجیح دی جائے گی، جہاں لوک سبھا کے لیے سب سے زیادہ ووٹنگ ہوئی تو شاید اگلی بار پاش علاقوں کے لوگ ووٹ کی لازمیت کو محسوس کرسکیں۔سیاسی جماعتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ووٹنگ زیادہ ہو، کیونکہ اس سے ان کے محدود ووٹ بینک کے اقلیت میں جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی الیکشن سے پہلے گھر گھر جاکر ووٹر لسٹ کی تجدید کا کام کرتی نہیں اور بی ایل او پہلے سے ہی کئی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے سرکاری ماسٹر ہوتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بھی نسبتاً ایک ایسے مثالی انتخابی نظام کی منتظر ہے جس میں کم از کم تمام ووٹرس رجسٹرڈ ہوں اور ووٹنگ ٹھیک طریقے سے ہونا یقینی بنایا جا سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS