اخلاقی تعلیم اور ہمارا تعلیمی منصوبہ

0

فیروزبخت احمد
آج ہم جس دورمیں سانس لے رہے ہیں،یہ دوراپنی بے پناہ کثیرسمتی ترقیوں کی بناپرمتنوع ہوچکا ہے۔ سیکولرزم اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو کلی آزادی جیسے موضوعات اکثر زیربحث لائے جاتے ہیں۔اخلاقی موضوعات پر گفتگو کرنے سے پہلے بہتر یہ ہوگا کہ ہم یہ جان لیں کہ کسی بھی سماج کی عمومی بنیادیں کیا ہوسکتی ہیں۔اگر غورسے دیکھا جائے تو کسی بھی سماج کی بنیاد اُس کے رہن سہن اور اطوار پر رکھی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رہن سہن کی بنیاد کیا ہے؟ تو اِس پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ رہن سہن اور عادات واطوار کی بنیادیں مذہب پر یا پھر کسی مخصوص نظریہ پر ہوسکتی ہیں۔مذہب اِسلام کے پیروکاروںکے رہائشی علاقہ میں اگر جائیں تو آپ کو جابجا مسجدیں،مدرسے اورگوشت کی دُکانیں اور لوگوں کو کرتہ، پائجامہ اور لنگی نیز ٹوپی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیںاورعورتوںکونقاب میں دیکھیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اِن اُصولوں کو سارے لوگ مانتے ہیں بلکہ ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو متذکرہ بالا عناصر سے مبرا ہوسکتے ہیں لیکن اُس سے یہ نتیجہ اخذ بالکل نہیں کیاجاسکتا ہے کہ وہ متعلقہ مذہب یاتہذیب کی نمائندگی کررہے ہیں بلکہ سماج کے تشکیلی عناصر سے اُنھیں خارج تصور کرلیاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اِسی طرح سے اگر آپ ہندواکثریتی علاقہ میں جائیں گے تو آپ کو مندریں وغیرہ دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔اِسی طرح سے اگر آپ عیسائی اکثریتی علاقہ میں جائیں گے تو وہاں کا ماحول آپ کو بالکل الگ ملے گا۔اِن حقائق پر غور کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ کسی بھی سماج کی بنیاد کے لیے کسی نہ کسی نظریہ یا مذہب کی ضرورت پڑتی ہے۔جب ہم نے سماج کے تشکیلی عناصر پر غور کرلیاتو اب یہ دیکھناچاہیے کہ ہماری شناخت جس مذہب یا تہذیب کی بنیاد پر ہے ،اُس کی اخلاقی تعلیمات کیا ہیں تاکہ ہمیں ایک کسوٹی مل سکے اور ہم جدید معاشرہ یا یوں کہہ لیجیے کہ موجودہ مسلم معاشرہ کو صحیح طورپر جان سکیں کہ اُس کی اندرونی حالت کیا ہے۔
ویسے اِس چھوٹے سے مضمون میں طوالت کی چنداں گنجائش نہیں ہے لہٰذا، محض اُنھیں عناصر کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جائے گی جو کسی بھی معاشرہ کی خاکہ کشی کرنے کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔اِس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ کہ سماج کی بنیاد مرد اور عورتوں کے ایک مجموعہ پر رکھی جاتی ہے۔مرداورعورتیں ہی مل کر کسی بھی سماج کوبناتے ہیں اوراُس کا تصور پیش کرتے ہیں۔اب مرداور عورت کے آپسی روابط اورسماج میں اُن کے مقام اورحقوق واختیارات کی تعیین ضروری ہے۔خیال رہے کہ بشری تقاضوں کے پیش نظرسہووخطا کی پوری پوری گنجائش ہے لہٰذا،مذکورہ دونوں عناصر کی صورت میں اہل نظرسے عفوودرگزرنیزصحیح حقائق تک رہنمائی کی درخواست ہے۔
مذہب اِسلام کی روسے مردوں اورعورتوں کے حقوق مساوی ہیں۔ہاں مردوں کو تھوڑی سی فوقیت محض اِس لیے حاصل ہے کیوںکہ وہ مسائل روزگار سے نبردآزماہوتا ہے اورمادّی حصولیابیاں اُس کے اوّلین فرائض میں شامل ہیں۔اِس سے بالکل یہ نتیجہ اخذنہیں کیاجاسکتا ہے کہ عورتوں کے حقوق مجروح ہوتے ہیں۔مسائل زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے یعنی اندرونی وبیرونی۔اوّل الذکر کے لیے عورتیں جوابدہ ہوسکتی ہیں اور اواخرالذکر کے لیے مردوں کو جوابدہ ہوناچاہیے۔مردوعورت دونوں کو بلاضرورت گھرسے نہیں نکلناچاہیے۔جب کسی چیزکی حاجت ہواور گھرسے باہرجاناناگزیر ہوتبھی مردوعورت دونوں کو گھرسے باہر جاناچاہیے۔ہاں عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اُنھیں اِس بات کا خیال رہے کہ وہ عورت ہیں لہٰذا، تمام ترلوازمات کو بجالاضروری ہے۔
اب نمبرآتا ہے رِشتہ داروں کا ۔سماج میں جن کے ساتھ جو رِشتہ داریاں اورجس نوعیت کی ہیں اُن کے تقاضوں کے مطابق اُسے پورا کرنا چاہیے۔اگر ایسا نہیں کیاجاتا ہے تو روابط میں دراریں پیدا ہوجاتی ہیں جو اِنسانی شرمسار اور تنہائی کی جانب لے جانے والی ہوتی ہیں اور اِنسان اِنسانون کے ایک ہجوم میں رہتے ہوئے بھی تنہائی کا اِحساس کرنے لگتا ہے۔جب تنہائی کا اِحساس اُسے ستانے لگتا ہے تو اُس کی صحت خراب ہونے کے اِمکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اِسی طرح سے اُس کے دل میں طرح طرح کے خیالات آنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ دھیرے دھیرے اخلاقی زوال کی جانب قدم بڑھانے لگتا ہے۔
اب نمبرآتا ہے پڑوسیوں کا کیوںکہ کسی بھی سماج کی تشکیل کے لیے اِنسانوں کے ایک مجموعہ کی ضرورت پڑتی ہے۔بحیثیت اِنسان ہونے کے سب لوگ یکساں حقوق کے حق دار ہیں اور اُن میں کسی طرح کے اِمتیاز کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔اگر کوئی اِمتیازی رویہ اختیار کرتا ہے تووہ مسلم الثبوت اُصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سماج میں بے راہ روی کے لیے راہیں ہموار ہونے کے اِمکانات کافی روشن ہوجاتے ہیں۔مذہب اِسلام کی روسے پڑوسیوں کے اپنے حقوق ہیں لہٰذا، اُن پر عمل درآمد اِنسانی فلاح کی راہ میں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔اگراُن اُصولوں کو پس پشت ڈالاجاتا ہے تو اُس سے سماج کے لیے اِنتہائی صورتیںپیدا ہونے کے اِمکانات غالب ہوجاتے ہیں لہٰذا، کسی متوازن معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ اِنسانوں کے فلاح اور اُن میں اِحساس تنہائی کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں رہ رہے افراد کی خبرگیری کریں نیز اُن کے حق وحقوق کی پاسداری کریں اگر ایسا نہیں کیاجاتا ہے تواُس کے نتائج کسی بھی ذی شعور شخص کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔
بچوں اورسن رسیدہ افراد کے اپنے حقوق ہیں لہٰذا، اُن کی بھی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُن کے حقوق کی ادائیگی اِنسانی سماج کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے کسی بھی درخت کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں اِس روئے زمین پر نہ تو اِنسان رہ سکتے ہیں اور حیوان ونباتات کی زندگی کا تصور کیاجاسکتا ہے لہٰذا، ضرور ی ہوجاتا ہے کہ بچوں کی تعلیم کابہتر اِنتظام ہو اور سن رسیدہ افراد کے تجربات کو کام میں لاکر اِنسانی معاشرہ کو مزید خوشحال اور فارغ البال بنانے کی ہمہ تن کاوِشوں کا مظاہرہ کیا جائے۔اگر اِنسانیت کی اِن دونوں شکلوں کو نظرانداز کردیاگیا تو سماج کا توازن کسی بھی صورت میں برقرار نہیں رہ سکتا ہے اورسماجی عدم توازن کی صورت میں اِنسان بذاتِ خود اپنے گڈھا کھودنے کا کام کرتا ہے اور وہ گڈھا ایسا کہ جو اِنسانی زندگی کو تہ وبالا کرکے رکھ دے لہٰذا، اِنسانیت کے بقاکے لیے ضروری ہے کہ سب کے حقوق کا پاس ولحاظ بخوبی رکھا جائے۔اِسی میں اِنسانیت اور انسانی معاشرہ کے بقا اور تحفظ کا راز مضمر ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا مسلم الثبوت اُصولوں کی روشنی میں موجودہ دورکے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج ہمارے معاشرہ میں نہ تو کسی کے لیے کوئی اُصول بچے ہیں اور نہ ہی کسی کواپنے ذمہ داریوں کو اِحساس ہے نتیجہ کے طورپر آج کا سماج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماج ہی نہیں رہا ہے بلکہ ایک ایسی جگہ بن کررہ گیا ہے جہاںاِنسان خود ہی اِنسان کا پیاسا ہوچلا ہے۔اُس کے دل میں نہ تو ذرّہ برابر اِنسانیت کے لیے درد اور نہ ہی بذاتِ خود اپنے خاندان اور افرادِ خاندان کے لیے ہی اُس کے دل میںکسی طرح کا کوئی عزت واِکرام بچا ہے۔مذکورہ بالا اُصول کی روشنی میں اگر ہم مردوعورت کے تعلقات کا پتہ لگائیں تو معلوم ہوگا کہ عورتیں حرماں نصیبی کا شکارہیں۔فطری اُصولوں سے اِنحراف کرکے اُن کے حقوق کو ناجائز طریقہ سے غصب کرلیاگیا نتیجہ کے طورپر اُنھیں بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔پھر کیاتھا اب نہ تو سماج سماج رہا اور نہ ہی وہ پاکیزہ تصورات جہاں اِنسان کو ایک راحت اور سکون کی جگہ کے طور پر گھرکوتصور کرنے کا موقع نصیب ہوتا۔اب کا مرد بھی مشین ہوچلا ہے اور عورتوں کو بھی اپنے ساتھ کرلیا ہے۔اِس طرح سے اب پوری اِنسانیت ہی حرکت میں آچکی ہے اور اب سماج کے سارے اُصول دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔رشہ داریوں اور ناطہ داریوں کی حالت اِس قدر ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ آج کا اِنسان آنکھیں چرائے نکل جاتا ہے۔اُس میں اِتنی ہمت اور سکت نہیں بچی ہے کہ وہ اپنے رِشتہ داروں سے ملاقات کرسکے۔کیوںکہ حرس وہوس نے اُسے کہیں کا نہ چھوڑا اور وہ بالکل مادّیت کا پجاری بنابیٹھاہے۔سارے اُصولوں کو اُس نے پس پشت ڈال دیا ہے۔نتیجہ کے طورپر اُس کی زندگی ویران سی ہوکر رہ گئی ہے۔اب اُس کو کوئی ایسی سبیل بھی دِکھائی نہیں دے رہی ہے جو اُس کو اِس قعرمذلت سے نکال سکے۔
پڑوسیوں کی توبات ہی نہ کیاجائے تبھی بہتر ہے۔کیوںکہ آج اُنھیں کوئی یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔حالات اِس قدر ہوچکے ہیں سال سال بھر گزرجانے کے باوجود لوگ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں پھر بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچان پاتے۔آج کا اِنسان اب یہی سوال کرتا ہے کہ کیا ایسا کوئی منظم سماجی نظام ہے جو ہم لوگوں ایک ایسا اُصول مہیا کراسکے جس سب لوگوں کے لیے سکون وراحت موجود ہو۔اِن حالات میں ہم لوگوں کو چاہیے کہ ہم لوگ اپنے اُن آفاقی اُصولوں کی جانب واپس ہونے کے بارے میں غورکریں جن کی رو سے سب کے لیے حقوق متعین کیے گئے ہیں۔اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو یقینا ہماری زندگیاں اجیرن ہوکررہ جائیں گی اور آنے والی نسلیں ہمیں نہ صرف لعن طعن کریں گی بلکہ اُن کے ذریعہ سرزد ہونے والی خطائوں کے لیے بھی ہمیں لوگ جوابدہ ہوںگے لہٰذا، اب بغیر مزید کسی تاخیر کے ہم لوگوں کو اُن اُصولوں کی جستجو کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔اُس کے لیے ہمارے سماج میں بالکل ایسی تنظیمیں اور ایسے اِدارے موجود ہیں جو آفاقی اُصولوں پر عملدرامد نیز اُن کی تشہیر کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں لہٰذا،ہمیں چاہیے کہ اُن کی نشاندہی کرکے اُن سے ملاقاتیں کریں۔اُن کی صحبت اختیار کرنے کے لیے طریقۂ کار طے کریں اور وقت نکالیں۔اب رہی بات بچوں کے تعلیم کی توہمیں چاہیے کہ ہم لوگ اپنے اُن آفاقی اُصولوں سے اپنے بچوں کو آگاہ کریں تاکہ وہ اُن مسائل سے دوچار نہ ہوں جن سے ہم لوگ ہورہے ہیں۔یہی ہمارا اخلاقی فریضہ ہوسکتاہے۔اگر ہم اِس سے روگردانی کرتے ہیں تو یقینا ہم اپنی آنے والی نسلوں کے حقوق کوغصب کررہے ہیں اور ایک نہ ایک دن اُس کے لیے ہمیں ضرورجوابدہ ہوناہوگا۔
اپنے گھرکے ماحول کے لیے ایک منظم نظام کوتشکیل دیں۔ اُصول متعین کریں اور اُس پر عمل پیراہونے کی کوشش کریں۔ہمارے آفاقی اُصول کسی بھی تعلیم کو حاصل کرنے کی راہوں میں نہیں آتے بلکہ مزید اُن کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔لیکن یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ کسی ایک عنصر کو اختیارکرلیاجائے اور دوسرے کو نظرانداز کردیاجائے۔ظاہر ہے،اِنسان کوزندہ رہنے کے لیے محض مادّہ کی ہی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اُسے جذباتی سکون اور طمانیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر محض مادّی حصولیابیوں کے لیے ہی کوششیں کی جاتی ہیں تو کسی بھی ذی فہم اِنسان کے لیے یہ نظریہ متوازن نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں اخلاقی عناصر کو بھی شامل کریں کہ اِسی سے اُن کی زندگی گل گلزار بن سکتی ہے اور ہماری زندگیوں میں رونق عود سکتی ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو یادرکھیے حالات مزید خستہ ہوتے چلے جائیں گے۔پھر اُس کا سدباب قدرے مشکل ہوکر جائے گا اوراِنسانی دسترس سے کوسوں دورہوجائے گا۔ پھر سوائے کف افسوس ملنے کے کوئی اور چیز ہاتھ نہیں آئے گی۔اِن حالات میں خردمندافراد کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ایک منظم منصوبہ کی تشکیل کریں تاکہ زندگی کوثمرآور بنایاجاسکے۔اِسی میںا ِنسانیت کی فلاح وبقا کا راز مضمر ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS