مزاح کے نام پر اخلاقی زوال

0

موجودہ دور میں جہاں ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز نے عوامی تفریح کو ایک نئی جہت دی ہے، وہیں کچھ عناصر اس آزادیٔ اظہار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اخلاقیات اور تہذیب کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ مزاح کی آڑ میں فحش گوئی،بدزبانی اور اخلاقی اقدار کی پامالی آج کی نوجوان نسل کیلئے ایک خطرناک مثال بن چکی ہے۔
حالیہ دنوں میں یوٹیوب شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ کے دوران نازیبا ریمارکس کرنے والے رنویر الٰہ آبادیہ کی درخواست ضمانت تو آج عدالت نے منظور تو کرلی لیکن اس کے ساتھ جو ریمارکس دیے، وہ اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک شدید اخلاقی بحران سے دوچار ہے۔

بیئر بائسپس کے نام سے معروف یوٹیوبر اور پوڈکاسٹر رنویر الٰہ آبادیہ نے گزشتہ دنوں اپنے شو میں غیرمہذب اور نازیبا زبان استعمال کی،جس کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا اور کئی مقامات پر اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ اپنی گرفتاری سے تحفظ کیلئے اس نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی دو نفری بنچ نے آج اس کی درخواست ضمانت کی سماعت کرتے ہوئے اسے عبوری ضمانت تو دے دی،مگر اس کے تبصروں پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پوڈکاسٹ میں استعمال ہونے والی زبان کو بیہودہ اور مسخ شدہ ذہنیت کا عکاس قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ سستی شہرت کے حصول کیلئے ایسے الفاظ استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ عدالت نے کہا کہ معاشرتی اقدار اور تہذیبی روایات کو پامال کرنے والے اس رویے کو قانونی دائرے میں پرکھا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی مواد تخلیق کرنے والا اخلاقی حدود کو عبور نہ کرے۔رنویر الٰہ آبادیہ کے تبصرے،جن میں اس نے والدین جیسے محترم اور مقدس رشتے کو بھی اپنی ناپاک زبان سے داغدار کرنے کی کوشش کی،اس کے ذہنی افلاس کے عکاس ہیں۔ عدالت نے ان الفاظ کو والدین کیلئے باعث شرمندگی اور پورے معاشرے کیلئے بھی ندامت قرار دیا۔

معاشرہ کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتا ہے اور جب اس بنیاد کو زنگ لگنے لگے تو اس کا براہ راست اثر آنے والی نسلوں پر پڑتا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں جب کہ بچے اور نوجوان بڑی تعداد میں یوٹیوب،انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز سے جڑے ہوئے ہیں،ان پر پڑنے والا اثر بھی اسی قدر گہرا ہے۔ یوٹیوبرز،انفلوئنسرز اور ڈیجیٹل کنٹینٹ کریٹرز کی ایک بڑی تعداد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر غیر اخلاقی،فحش اور بیہودہ مواد کو فروغ دے رہی ہے،جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کی سوچ، زبان اور رویے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ معصوم ذہنوں میں فحاشی کو مزاح کے طور پر قبول کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اخلاقی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ہندوستانی معاشرت اور مشرقی ثقافت ہمیشہ سے احترام،شائستگی اور اخلاقی اقدار پر مبنی رہی ہے۔ لیکن جب سوشل میڈیا کے ذریعے غیر مہذب اور غیر اخلاقی مواد عوام تک پہنچایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ہماری سماجی اقدار کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کا اثر نوجوانوں کے کردار اور اخلاقیات پر بھی پڑتا ہے۔ ایسے ٹاک شوز، جن میں نازیبا گفتگو کو مزاح کا نام دیا جاتا ہے،بنیادی طور پر نوجوانوں کے اذہان کو آلودہ کر رہے ہیں اور انہیں اخلاقی گراوٹ کے راستے پر دھکیل رہے ہیں۔

یہ صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ اب محض عدالتی چارہ جوئی کافی نہیں رہی،بلکہ عوام کو بھی شعور بیدار کرنا ہوگا کہ وہ ایسے مواد کو دیکھنے سے اجتناب کریں اور ان کے تخلیق کاروں کا بائیکاٹ کریں۔ ایک باشعور معاشرہ وہی ہوتا ہے جو اپنی اقدار کی حفاظت کرے اور ایسے عناصر کے خلاف نہ صرف قانونی بلکہ سماجی سطح پر بھی سخت اقدامات کرے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر موجود فحش اور غیر اخلاقی مواد کی سخت نگرانی کرے اور ایسے قوانین بنائے جو نوجوانوں کو اس زہریلے مواد سے محفوظ رکھ سکیں۔

رنویر الٰہ آبادیہ جیسے انفلوئنسرز کے ذریعے جو رویے اور خیالات پروان چڑھائے جا رہے ہیں،وہ کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے ناقابل قبول ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ عوام اپنی اخلاقی ذمہ داری کو سمجھیں اور ایسے مواد کی مخالفت کریں جو ہماری آنے والی نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہم نے اس رجحان کو ابھی نہ روکاتو ہمارا مستقبل بھی اسی بے راہ روی،فحاشی اور اخلاقی زوال کا شکار ہوگا جو آج سوشل میڈیا پر کھلے عام فروغ دیا جا رہا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS