خیر کا موسم

0

خیر کا موسم
مولانا ندیم الواجدی
قرآن کریم میں کئی مقامات پر خیرات کا لفظ مذکور ہے، جس کے معنی ہیں خیر کے کام یا اعمال صالحہ۔قرآن کریم میں اس سے وہ اعمال واقوال مراد لئے گئے ہیں جواللہ کومحبوب ہوں، خواہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال واقوال کا حکم دیا ہو یا ان کی ترغیب دی ہو۔ قرآن کریم میں دو مقامات ایسے ہیں جن میں خیر کے کاموں کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا’’ سو تم نیک کاموں میں سبقت کرو خواہ تم کہیں بھی ہو اللہ تم سب کو حاضر کردے گا‘‘(البقرۃ: 148)۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا’’ تم سب خیر کی طرف دوڑو، تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے، پھر وہ تم سب کو جتلادے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے‘‘ (المآئدۃ: 48)۔ ایک طرف تو اللہ رب العزت نے خیر کے کاموں کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا دوسری طرف ان کی مدح سرائی بھی کی جو حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، یہاں تک کہ انھیں صالحین کے زمرے میں شامل فرمایا’’وہ لوگ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں سبقت کرتے ہیں اور یہ لوگ نیک لوگوں میں سے ہیں‘‘َ(آل عمران: ۱۱۴)۔
ایک موقع پر خیر کے کاموں کی طرف سبقت کو دعا کی قبولیت کے اسباب میں ذکر فرمایاگیا’’ سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم نے ان کو بیٹا یحییٰ عطا کیا، اور ان کی خاطر ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنایا، یہ سب نیک کاموں میں سبقت کیا کرتے تھے ‘‘َ(الانبیآئ: 90)۔ دوسری جگہ اس عمل کو اہل ایمان کے بہت سے اوصاف حسنہ میں سے ایک وصف بیان کیا گیا’’یہ لوگ اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کررہے ہیں اور ان کی طرف دوڑ رہے ہیں‘‘(المؤمنون 61)۔ اتناہی نہیں بلکہ ایک جگہ توخیرات کا ذکر نماز روزہ سے بھی پہلے فرمایا’’اور ہم نے ان کو مقتدا بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے اور ہم نے ان کے پاس نیک کاموں کے کرنے کا اور نماز کی پابندی کا اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم بھیجا‘‘(الانبیآء : 73)۔ ان تمام آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خیر کے کام بے حد پسند ہیں، اسی لیے اس نے بار بار ان کاموں کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا ہے، سبقت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تیزی کے ساتھ کسی کام کی طرف بڑھے، تاکہ دوسرا کوئی اس سے پہلے اس کام کو انجام نہ دے سکے، گویا نیکی کرنا ہی مطلوب نہیںہے بلکہ نیکی میں سبقت کرنا بھی مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں سرکار دوعالمؐ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا گیا ہے ’’صرف دوآدمیوںسے حسد کیا جاتاہے، ایک تو اس شخص سے جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کا خوگر بھی بنادیا ہو، دوسرا اس شخص سے جسے اللہ نے علم وحکمت سے نوازا ہو، جس کی روشنی میں وہ فیصلے کرتا ہو اور جسے دوسروں کو سکھلاتا ہو‘‘(بخاری:1/ 130، رقم الحدیث: 71، مسلم:4/451، رقم:1352)۔ اہل علم نے ’’ حسد‘‘ سے مراد یہ مسابقت لیا ہے جس کا ذکر مقصود ہے۔خیر کے کاموں میں مسابقت اورمنافست ہر جگہ اور ہر لمحہ مطلوب ہے، لیکن بعض مقامات اور بعض اوقات میں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے، یہ وہ مقامات اور اوقات ہیں جن کو اللہ نے کسی شرف سے نواز دیا ہے، اوردوسرے مقامات واوقات کے مقابلے میں ان کو فضیلت عطا کردی ہے، زمان ومکان کا فضل وشرف نصوص سے ثابت ہے ، مثال کے طورپر مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں بدرجہا افضل ہے۔ ان تینوں مقامات کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے علاوہ باقی مقاماتِ عبادت (مساجد) کے لیے سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے، جس طرح اللہ نے بعض مقامات کو یہ مقام ومرتبہ عطا فرمایا ہے اسی طرح بعض زمانوں کو بھی فضیلت بخشی گئی ہے۔ ہفتہ کے دنوں میں جو خصوصیت جمعہ کو حاصل ہے وہ باقی دنوں کو حاصل نہیں ہے، اسی طرح رات کے آخری حصے میں جو فضیلت رکھی گئی ہے وہ رات کے دوسرے کسی حصے میں نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے ’’ اللہ رب العزت ہر شب اس وقت آسمان دنیا پر جلوہ فرماتے ہیں جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتے ہیں کون ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار سنوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی مغفرت کروں‘‘(سنن ابوداؤد: 4/ 83،رقم:1120)۔
رمضان کا مہینہ اور حج کے ایام بھی ان اوقات میں سے ہیں جن کو باقی روز وشب پر فضیلت حاصل ہے، یوں تو سارے دن اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور سال کے بارہ مہینے اور ان بارہ مہینوں کے ہر لمحے کو ہمیں خیر کی جستجو میں صرف کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ان میں کچھ دن اورکچھ راتیں اور کچھ ساعتیں ایسی بھی ہیں جن میں رحمت الٰہی کی باد نسیم کے جھونکے کچھ زیادہ ہی روح کو سرشار کرتے ہیں۔ایک حدیث میں ہے ’’ہر لمحے ہر آن خیر کی تلاش میں لگے رہو، اور اللہ کی رحمت کے جھونکوں کی جستجو کرتے رہو، اس لیے کہ اللہ کی رحمت کے کچھ جھونکے ایسے ہیں جو اس کے بندوں میں سے ان کو پہنچتے ہیں جن کو وہ پہنچانا چاہتاہے‘‘(کنز العمال:7/769)۔ ہوسکتا ہے وہ بندے ہم ہی ہوں، مگر اس کے لیے تلاش بھی تو ضروری ہے، اس لیے حدیث کی کتابوں میں رمضان کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک مہینے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت وکیفیت دوسرے مہینوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہواکرتی تھی۔ سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی جود وسخا میں ممتاز تھی اور دربار نبوت سے ہر وقت دادودہش کا سلسلہ جاری رہتاتھا، لیکن رمضان آتے ہی آپ کی یہ عادت مبارکہ اوج کمال پر پہنچ جاتی تھی۔اگر غور کیا جائے تو خیر کے کاموں میں مسابقت کے لیے رمضان سے بڑھ کر کوئی مہینہ نہیںہے، یوں تو اللہ نے تمام دنوں میں ایک نیکی کے عوض دس نیکیوں کا وعدہ کیا ہے، لیکن رمضان میں یہ عدد ستر سے سات سو گنا تک جا پہنچتا ہے، بڑے نادان ہیں وہ لوگ جو خیر کے اس موسم کو کھانے پینے میں، غیر ضروری کسب معاش میں، آرام طلبی میں، اور محفل آرائی میں گزار کر ضائع کردیتے ہیں۔٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS