بالآخر لوک سبھا کا مانسون اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ پیگاسس جاسوسی معاملہ، زرعی قوانین کی منسوخی، مہنگائی اور دیگر موضوعات پر مسلسل ہونے والے ہنگامے کی وجہ سے ایوان تعطل کا شکار رہا اور اپنا طے شدہ ہدف بھی حاصل نہیں کرپایا۔ 19 جولائی سے شروع ہوئے لوک سبھا کے مانسون اجلاس میں مجموعی کام کاج فقط 74گھنٹے ہی ہوا۔ یعنی یہ ایوان اپنے مقررہ ہدف کا صرف 22فیصد ہی حاصل کرسکا۔
لوک سبھا کے اسپیکر اوم بڑلا کا کہنا ہے کہ یہ ایوان 96گھنٹوں تک چلنا تھا لیکن اسے 74 گھنٹے46منٹ میں ہی سمیٹ دیاگیا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ ارکان کا غیر پارلیمانی رویہ، پلے کارڈ اٹھا کر ہنگامے کرنا اور چیئرکے سامنے نعرے لگانا سب سے بڑی وجہ ہے۔ اجلاس کے قبل از وقت ملتوی کیے جانے پر اسپیکر نے اپنے دکھ کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ ایوان کی کارروائی چلانے کی ان کی تمام کوششوں کو اپوزیشن ارکان نے ناکام بنادیا،جس کی وجہ سے ایوان کوہی ملتوی کردینا پڑا۔حالانکہ اجلا س شروع ہونے سے قبل اسپیکر نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقات کرکے ان سے مکمل تعاون کی بھی یقین دہانی حاصل کی تھی۔ لیکن باوجود اس کے ہنگامہ ہوتا رہا اور کارروائی تعطل کا شکار رہی ہے۔
19جولائی سے شروع ہونے والے مانسون اجلا س کا کوئی دن ایسا نہیں تھا جب ہنگامہ نہ ہوا ہو اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے مختلف موضوعات پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش نہ کی ہو لیکن حکومت، اپوزیشن کے مطالبات سے صرف نظرکرتی رہی۔ زرعی قوانین کی منسوخی، پیگاسس جاسوسی معاملہ اور مہنگائی جیسے سلگتے موضوعات پر حکومت نے بحث کے مطالبہ کو نظر انداز کیا جو پارلیمانی جمہوریت کے خلاف تھا۔
اپوزیشن کا یہ حق ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ مختلف مسائل پر اپنی رائے رکھے۔ حکومت کو تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپوزیشن کی رائے سننی چاہیے بلکہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسئلوں اور مطالبات پر باقاعدہ بحث کراکر کسی ایک نقطہ پر پہنچنا چاہیے۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ حکومت نے 74گھنٹوں کی اس کارروائی میں مہنگائی اور زرعی قوانین جیسے سلگتے مسائل کو نظرانداز کیا اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ اجلاس کے 20دنوں میں 20 بل منظور کیے گئے مگر ان پر بھی اپوزیشن کی رائے کو درخوراعتنا نہیں سمجھاگیا اور انتہائی عجلت میں بغیر کسی بحث و مباحثہ کے یہ بل سرسری طور پر منظور کردیے گئے۔ لوک سبھا سے پاس ہونے والے بلوں میں سے فقط دیگر پسماندہ طبقات سے متعلق آئین کے127ویں ترمیمی بل 2021کو اس سے استثنیٰ حاصل رہا۔کیوں کہ اس بل پر تمام فریق نہ صرف متفق تھے بلکہ اسے پاس کرانے میں اپوزیشن نے حکومت کا پوراپورا ساتھ دیا تھا۔
اس لحاظ سے تعطل کا ذمہ دار صرف اپوزیشن کو ٹھہرانا غیرمناسب ہوگا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ہنگامہ کی ذمہ دار صرف اپوزیشن ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کے اڑیل رویہ کی وجہ سے ایوان میں یہ صورتحا ل پیش آئی۔ لوک سبھا نیز ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھی ہونے والے ہنگاموں میں اپوزیشن کے گرمی جذبات سے کہیں زیادہ حکمراں جماعت کے ارکان کی اشتعال انگیزی اور سلگتے موضوعات پر حکومت کا بحث سے فرار اہم وجہ ہے۔
جن تین ایشوز پر بحث سے حکومت بھاگ رہی ہے ان تینوں کا راست تعلق عوام سے ہے۔ زرعی قوانین ہوں یابڑھتی مہنگائی ان سے عام آدمی ہی متاثر ہے، اس لیے یہ معاملہ ترجیحی بنیادپر اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن نہ تو لوک سبھا میں ہی کسی دن اس پر کوئی بات ہوئی اور نہ ہی راجیہ سبھا میں۔
اجلاس کے پہلے ہی دن اپوزیشن نے اپنے تیور سے یہ بتادیاتھا کہ وہ کسی بھی حال میں ان تینوں موضوعات سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہونا تویہ چاہیے تھا کہ حکومت ان معاملات کی سنگینی کو سمجھتی اور ایوان میں ان پر اپنا موقف پیش کرتی لیکن حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔اس کے برخلاف اپوزیشن کے مطالبات کو ملک دشمنی اور ایوان نہ چلانے دینے کی سازش بتاتی رہی۔خود وزیراعظم نریندر مودی بھی ایوان سے مسلسل غیرحاضر رہے۔ بہ حیثیت وزیراعظم انہیں تینوں مطالبات پر ایوان میں حکومت کا موقف پیش کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہواپہلے دن کے بعد،اجلاس ملتوی کیے جانے پر جب سب کچھ ختم ہوگیا تو وہ ایوان پہنچے۔
بہرحال لوک سبھا کا مانسون اجلاس نہ صرف اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہا بلکہ عوامی خزانہ پر 150کروڑ روپے کا بوجھ بھی ڈالا گیا۔یہ صورتحال کسی بھی پارلیمانی جمہوریت کے شایان شان نہیں کہی جاسکتی ہے۔
[email protected]
لوک سبھا کا مانسون اجلاس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS