پیسوں کا کھیل

0

کوئی خواہ کچھ کہے الیکشن پیسے کا کھیل ہے،جس کے پاس پیسہ ہوتاہے، وہ خوب خرچ کرتا ہے اوربڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلاتاہے اورجس کے پاس پیسہ نہیں ہوتاہے، وہ ہمت کرکے الیکشن میں کھڑا تو ہوجاتاہے، لیکن اس کی انتخابی مہم اس قدر محدود ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی پہچان تک نہیں بناپاتا، امیدواروں کی بھیڑ میںاس طرح کھوجاتاہے کہ اسے ملنے والے ووٹ سیکڑوں میں بھی نہیں پہنچ پاتے۔الیکشن میں اصلی مقابلہ پارٹی امیدواروں کے درمیان ہوتاہے۔انگلیوں پر گنے جانے والے آزاد امیدواروں کی کامیابی پر اب تو لوگوں کوبھی حیرت ہوتی ہے۔وہ صرف اپنی مقبولیت،کام اورزبردست عوامی حمایت اورووٹ کی بدولت ہی جیت پاتے ہیں۔کبھی کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ لوگ بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کو کسی وجہ سے پسند نہیں کرتے ہیں یا ان سے ناراض ہوتے ہیں تو آزاد امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کردیتے ہیں۔

ورنہ عام حالات میں ایک عام آدمی کیلئے الیکشن جیتنا تو دور کھڑاہونا بھی آسان نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں اب الیکشن کافی خرچیلا ہوگیا ہے۔الیکشن جیتنے کیلئے پارٹیوں کی طرف سے بھی اورامیدواروں کی طرف سے بھی پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتاہے۔سینٹر فارمیڈیا اسٹڈیز کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں 1.35لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے، حالانکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اس کے برعکس جانکاری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی حد میں برابر اضافہ کرتا رہتا ہے، اس کے باوجود امیدوار اورپارٹیاں الیکشن پر اتناخرچ کرتی ہیں کہ حساب کتاب رکھنا اورفوراً الیکشن کمیشن کو پیش کرنا مشکل ہوتاہے۔انتخابی اخراجات کی تفصیل پیش کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق کچھ پارٹیوں نے ابھی تک انتخابی اخراجات کی تفصیل نہیں پیش کی ہے۔

عام خیال یہی ہے کہ جتنی بڑی پارٹی اتنا ہی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ خرچ کیلئے پیسہ کہاں سے آتاہے، یہ ایک ایساراز ہے، جس پر سے شاید ہی پردہ اٹھ سکے۔انتخابات میں قدم قدم پر خرچ ہوتا ہے۔ انتخابی مصارف اتنے ہوتے ہیں کہ ان کو امیدوار اورسیاسی پارٹیاں ہی بتاسکتی ہیں، عام آدمی شمار نہیں کرسکتا ہے۔ گاڑیوں، روڈ شو، انتخابی جلسوں،ریلیوں،اسٹار کمپینروں کے دوروں،ہیلی کاپٹر، پوسٹر، بینر ہورڈنگس، کپڑے، جھنڈے، اسٹیکرس اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا، نیٹ اورڈیجیٹل پلیٹ فارموں پر نہ ختم ہونے والے اشتہارات پربے تحاشہ خرچ کیا جاتاہے۔

سبھی کہتے ہیں کہ الیکشن سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، لوگوں کو اپنی پسند کی سرکار منتخب کرنے کا موقع ملتاہے، لیکن حقیقت میں پیسوں کی لڑائی ہوتی ہے اور الیکشن پیسوں کی لڑائی کامیدان بن گیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ پیسے کس پر خرچ ہوتے ہیں؟ اورکون ان سے فائدہ اٹھاتاہے؟کچھ ہی لوگ ہیں جو سبھی پارٹیوں کے بینر، پوسٹر اورجھنڈے تیار کرتے ہیں، انتخابی جلسوں یہاں تک کہ ہیلی کاپٹروں کا انتظام کرتے ہیں، یعنی اصل فائدہ تو کوئی اور اٹھاتاہے، توعوام کو کیا ملتاہے؟ظاہر سی بات ہے جب سارے پیسے الیکشن ہی پر خرچ کردیے جائیں گے تو الیکشن کے بعد ترقیاتی کاموںاورلوگوں کے مسائل کو حل کرنے پرکیا خرچ ہوں گے ؟یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 78سال بعد بھی ملک کے بہت سے علاقے بجلی، پانی، سڑک، اسکول اوردیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اوروہ ان مسائل کو اٹھاکر الیکشن کا بائیکاٹ کردیتے ہیں۔اس وقت پورے ملک کو پتہ چلتاہے کہ کروڑوں خرچ کرکے جیتنے والے امیدوار کسی علاقے کو کس طرح نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہ پسماندہ ہوجاتے ہیں اور دوسرے الیکشن میں جب ان ہی امیدواروں کو رائے دہندگان دیکھتے ہیں، تو الیکشن میں ان کی دلچسپی نہیں رہتی ہے اوروہ بائیکاٹ کردیتے ہیں۔

الیکشن میں پیسوں کا کھیل ہوتا ہی ہے، لیکن وہ اتنی رازداری کے ساتھ اور بچ کر کھیلا جاتا ہے کہ کسی دوسرے کیلئے حساب کتاب رکھنا آسان نہیں ہے۔لوگ تو مجبور ہیں، وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے، بس تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جس الیکشن کمیشن سے کارروائی کی امیدکی جاتی ہے، اس کی طرف سے انتخابی اخراجات پر اب تک سخت کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف رپورٹ کی پیشی اور اسے ویب سائٹ پر ڈالنے کی رسم اداکی جاتی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جسے کوئی بھی الیکشن میں دیکھ سکتاہے اورمحسوس کرسکتاہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS