ریزرو بینک آف انڈیا نے بدھ کے رو زشرح سود میں 0.25 فیصد کی کمی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد یہ 6.25 فیصد تک آ پہنچی ہے۔اچانک کیا جانے والا یہ فیصلہ معاشی ماہرین اور عوام دونوں کیلئے کسی حد تک حیران کن ثابت ہواہے کیونکہ بینک کی پالیسی میں یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب افراط زر کی شرح میں کمی کا رجحان تو ضرور دکھائی دے رہا ہے، مگر اسے مکمل طور پر قابو میں قرار دینا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اگرچہ شرح سود میں کمی کا مقصد معاشی ترقی کو سہارا دینا اور سرمایہ کاری کو فروغ دینابتایاگیا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ حقیقی معاشی استحکام کی جانب ایک قدم ہے یا پھر محض ایک عارضی حربہ؟
افراط زر کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار بھی اس فیصلے کی موزونیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اکتوبر 2024 میں مہنگائی کی شرح 6.21 فیصد تک پہنچ گئی تھی جس کے بعد یہ جنوری 2025 میں کم ہوکر 4.31 فیصد پر آ گئی۔ بظاہر یہ کمی ایک مثبت پیش رفت معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر صرف دو سے تین ماہ کی مہنگائی میں کمی کو بنیاد بنا کر سود کی شرح کم کی جائے تو یہ ایک غیر محتاط پالیسی تصور کی جائے گی۔ویسے بھی گزشتہ چند مہینوں میں خوراک کی افراط زر میں کمی ضرور آئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ بنیادی اشیا کی قیمتیں غیر متوقع طور پر بلند رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ناریل کا تیل 54.20 فیصد، آلو 49.61 فیصد، ناریل 38.71 فیصد، لہسن 30.65 فیصد اور سبز مٹر 30.17 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ کچھ اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے مگر دوسری کئی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام کی قوت خرید پر بدستور اثر انداز ہو رہی ہیں۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سبزیوں، دالوں، اناج اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ مستقل ایک مسئلہ رہا ہے اور اگر مستقبل میں مہنگائی دوبارہ بڑھتی ہے تو اس فیصلے کے منفی اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ خاص طور پر اشیائے خورد و نوش کے معاملے میں قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو آنے والے مہینوں میں مہنگائی کو دوبارہ بڑھا سکتا ہے۔ اگر مرکزی بینک نے شرح سود میں کمی کے ذریعے اقتصادی ترقی کو فوقیت دی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر کم توجہ دی تو یہ ایک خطرناک معاشی حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔
حکومت کی مالیاتی حکمت عملی میں ایک اور متنازع پہلو حالیہ بجٹ میں دی گئی ٹیکس چھوٹ ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے جن مراعات کا اعلان کیا ہے، وہ دراصل اعلیٰ متوسط طبقے کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گی کیونکہ ان سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر وہ افراد ہیں جو پہلے ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ ان لوگوں کی آمدنی میں جو اضافہ ہوگا وہ معیشت میں اخراجات کے ذریعے طلب کو بڑھائے گا اور یوں معاشی ترقی میں مدد ملے گی۔ مگر اس نکتہ نظر میں کئی کمزوریاں ہیں۔ اولاً اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ مذکورہ طبقہ اس اضافی آمدنی کو خرچ کرنے پر آمادہ ہوگا، خاص طور پر جب روزگار کے مواقع اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ دوم کم آمدنی والے طبقے کیلئے کوئی قابل ذکر ریلیف نہیں دی گئی حالانکہ وہی سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ نتیجتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ مالیاتی پالیسی واقعی عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے یا محض مخصوص طبقے کو نوازنے کی ایک کوشش؟
ریزرو بینک کے حالیہ فیصلے کو اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس پر شکوک کے سائے مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔ شکتی کانتا داس کے بعد سنجے ملہوترا کا گورنر کے عہدے پر تقرر اور ان کے تحت مانیٹری پالیسی کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں یہ فیصلہ ہونا ، صریحاً مرکزی حکومت کے دباؤ کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر جب پچھلی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاسوں میں افراط زر کو قابو میں رکھنے کی ترجیح پر زور دیا جاتا رہا تو ایسے میں اچانک شرح سود میں کمی کو ایک غیرجانبدارانہ فیصلہ قرار دینا مشکل نظر آتا ہے۔
معاشی پالیسی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ افراط زر کو قابو میں رکھے بغیر کسی بھی قسم کی مانیٹری یا مالیاتی مداخلت غیر مستحکم معاشی حالات کو جنم دے سکتی ہے۔حکومت کی اقتصادی پالیسی کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس میں ایک واضح تضاد دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف بجٹ میں ٹیکسوں میں کمی کے ذریعے طلب کو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف شرح سود میں کمی کے ذریعے سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ جب افراط زر کو مکمل طور پر قابو میں نہیں لایا گیا تو کیا یہ اقدامات معاشی استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اگر افراط زر دوبارہ بڑھنا شروع ہوا تو نہ صرف عوام کی قوت خرید مزید کم ہو جائے گی بلکہ معیشت میں غیر یقینی صورتحال بھی بڑھ جائے گی۔
افراط زر پر قابو پانے کیلئے مستقل بنیادوں پر پالیسی سازی ضروری ہے اور اس کیلئے مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں میں ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر ایسے فیصلے عوام کو وقتی طور پر خوش تو کر سکتے ہیں مگر طویل مدت میں معیشت کو مزید غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔