شاہد زبیری
پارلیمنٹ کے سر مائی اجلاس میں اڈانی اور امبیڈ کر کے ایشو پر گرما گرم بحث کے دوران سنگھ پریوار کے قائد ،سر سنگھ چالک موہن بھا گوت کا تازہ بیان سامنے آیا ہے۔ انہوں نے پونے شہر میں منعقد لیکچر سیریز پروگرام میں ’انڈیا وشو گرو‘ پر لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگ مسجد کے نیچے مندر کی کھوج کے ایشو اچھال کرخود کو ہندو ئوں کا لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔‘ انہوں نے اسی لیکچر میں یہ بھی کہا ہے کہ ’با ہر سے آنے والے کچھ گروہ اپنے ساتھ کٹّر پن لے کر آئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پرانی حکمرا نی واپس آجا ئے‘ لیکچر کے اس ٹکرے کو پہلے ٹکڑے سے جوڑ کر دیکھا جا ئے تو بیان کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے ، لیکن پہلے ٹکڑے پر نہ جا نے کیوں مسلم سیاسی حلقوں میں تالیاں بجا ئی جا رہی ہیں اور تو اور سماجوادی پارٹی کے سپریمو اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی اس کی ستائش کی اور بیان کا خیر مقد م کیا بلکہ سماجوادی پارٹی کا تھنک ٹینک مانے جانے والے راجیہ سبھا کے رکن رام گوپال یادو نے کہا کہ بھاگوت نے ایسا بیان دے کر صحیح کام کیا ہے ۔اتنا ہی نہیں سماجوادی پارٹی کی ایم پی اقرا حسن سے لے کر سیاسی جماعتوں کے دیگر مسلم لیڈران سابق ایم پی اور ماہر قانون مجید میمن، کانگریس کے سابق ایم پی حسین دلوائی وغیرہ نے بھی ملک میں چل رہی فرقہ واریت کی گرم ہوائوں میں بھاگوت کے بیان کو نسیم بہاری سمجھ کر بیان کی پذیرائی کی۔ تاہم مجید میمن نے بیان پر کچھ سوال بھی کھڑے کئے ہیں۔ ان سب بیانات سے ایسا لگتا ہے جیسے موہن بھاگوت نے ایسا بیان پہلی مرتبہ دیا ہو حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان جون 2022 کے ان کے پرانے بیان کی بازگشت ہے جو انہوں نے گیانواپی مسجد کے سروے کرائے جا نے پر دیا تھا اور اس سے زیادہ صاف الفاظ میں کہا تھا کہ’رام مندر کی تعمیر کے بعد اب ہر مسجد کے نیچے شیولنگ نہ ڈھونڈا جا ئے‘ لیکن کیا ان کے اس بیان پر سنگھ پریوار نے یا بی جے پی ،وشو ہندو پریشد یا بھگوا بر یگیڈ نے کان دھرے تھے؟ ۔ مجید میمن نے صحیح کہا کہ موہن بھاگوت اکثر ایسے اچھے بیانات دیتے رہتے ہیںلیکن ان پر شاذ ونادر ہی عمل ہوتا ہے۔ اگر واقعی بھاگوت کے بیان پر ر تی برابر بھی عمل ہوتا تو ’لائق باپ بیٹے ‘وشنو جین اور ان کے والد جو خود بھی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں وہ گیانواپی مسجد کے سروے کے بعد اپنے کان پکڑ لیتے اور سنبھل سمیت ملک کی دیگر مساجد کے نیچے مند ر کی کھوج کیلئے کبھی نہ نکلتے جبکہ یہ دونوں جین بندھو جین مندروں کو ہندو مندروں میں تبدیل کئے جانے پر کبھی کچھ نہیں بولے۔موہن بھاگوت جی نے مسجدوںکے نیچے ’مندروں کی کھوج ‘کے الزام سے خود کو بری الذمّہ قرار دئے جانے کے لئے اس دوسرے بیان میں انہوں نے ایسا پہلی مرتبہ کہا کہ ’ایسے ایشوز( مسجدوں کے نیچے مندروں کی کھوج) اچھالنے والے خود کو ہندوؤں کا لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔‘ خود کو ہندو لیڈر ثابت کرنے والے کون ہیں بھاگوت جی اس کا بھی کچھ اشارہ دے دیتے ہیں اس لئے کہ ہندو سمراٹ بننے کی تو ملک میں ہوڑ لگی ہے۔ یو گی جی اور ہیمنت بسوا سرما اس ہوڑ میں سب سے آگے ہیں ۔ کسی اور کے بھی ہندولیڈر بننے سے آخر سنگھ یا بھا گوت کو کیا خطرہ ہے ؟ جو بھاگوت جی کو یہ بیان دینا پڑا۔ مسجدوں کے نیچے مندروں کی کھوج کی بنیاد آخر کس نے کھڑی کی ہے یہ سوال بھی موہن بھاگوت سے پوچھا جا نا چاہئے۔ وشو ہندو پریشد کیا سنگھ پریوار کا حصّہ نہیں اور کیا وشو ہندو پریشد نے ہی سب سے پہلے بابری مسجد کو لے کر سودے بازی شروع نہیں کی تھی۔ وشو ہندو پریشد کے پہلے صدر آنجہانی اشوک سنگھل صاف کہتے تھے کہ مسلمان تین مسجدوں بابری مسجد، گیانواپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیں تو ہم بھی 30ہزار سے لے کر 40ہزار ایسی ان تمام مساجد پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جا ئیں گے جو مندر توڑ کر بنا ئی گئی ہیں۔
وشو ہندو پریشد آج بھی اسی کام پر لگا ہوا ہے وشو ہندو پریشد کو سنگھ پریوار ہی کنٹرول کرتاہے۔ ایسی صورت میں مندر نہ کھوجنے کی موہن بھاگوت کی نصیحت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھو نکنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ اکیلا ایک ایسا بیان نہیں جو پہلی مرتبہ موہن بھاگوت نے دیا ہو۔ موہن بھاگوت اس بات پر عمل کرتے ہیں کہ ’بات وہ کہئے جس کے سو پہلو ہوں ،کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لئے۔ ‘اس بیان سے پہلے موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوتوا کی تکمیل نہیں ہو سکتی ، ’مسلمانوں اور ہندوئوں کا ڈی این اے ایک ہے ۔ مسلمان بھی ہندو ہیں عبادت کا طریقہ الگ ہو سکتا ہے ۔‘ سنگھ کا یہ اصرار ہمیشہ سے رہاہے کہ مسلمان عبادت جس طرح چاہیں کریں، لیکن ہندو ثقافت اور ہندورسم رواج کو بھی اپنائیں۔سنگھ مسلمانوں کی آبادی کے بڑھنے کا تماشہ برادرانِ وطن کو دکھا تا رہتا ہے ۔اس کو ہندئووں کی شرح آبادی گھٹ جا نے کا خوف بھی ہے۔ موہن بھاگوت نے مسجدوں کے نیچے مندروں کی کھوج کے بیان کے ساتھ ہی ہندوئوں کی گھٹتی آبادی پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ نجی کریئر کو اہمیت دئے جا نے کی وجہ سے اور یہ خیال کئے جا نے کی وجہ سے ہی ہماری شرح آبادی گھٹ رہی ہے‘ ان کی نظر میں اس کی کوئی اور وجہ نہیں ہے، اس سے کچھ دن پہلے بھی وہ ایک بیان میں ہندوئوں کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت کر چکے ہیں کہ ’ ہندوئوں کودو تین بچوں سے زیادہ بچے پیدا کر نے چا ہئے ۔‘ گزشتہ دنوںسہارنپور میں وشو ہندو پریشد کے دوسرے دھڑے کے خود ساختہ عالمی صدر پروین توگڑیا نے بھی ہندوئوں کو ان کی گھٹتی آبادی کا خوف دکھایا تھا اوراس حوالہ سے بڑی اشتعال انگیز باتیں کہی تھیں ۔ہر اس شخص کو معلوم ہے جو سنگھ کو تھوڑا بہت جانتا ہے کہ خود کو کلچرل تنظیم بتا نے والا سنگھ پریوار سیاست میںگلے تک ڈوبا ہوا ہے سنگھ کے سر سنچالک کے ہر بیان کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جن سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے ۔سنگھ پریوار اپنے قیام سے لے کر آج تک اسی حکمتِ عملی پر کام کررہا ہے اورسر سنگھ سنچالک کا کوئی بیان اس حکمت عملی سے خالی نہیں ہوتا ان کے ان حالیہ بیانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا نا چاہئے۔ سر سنگھ سنچالک گرو گولوالکر کی کتاب Bunch Of Thuts’ ‘ اورwe or Our Nationhood Defined’ ‘ جیسی کتابوں میںمسلم اور عیسائی اقلیتوں کا جو درجہ طے کیا گیا ہے اس کے ہوتے ہوئے سنگھ کے کسی لیڈر کے مسلمانوں کی ہمدردی میں دئے گئے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جن لوگوں نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ان کو ہندو راشٹر کے بلو پرنٹ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے دوسرے درجہ کے شہری رکھے جا نے کی بابت صاف صاف کہا گیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے موہن بھاگوت کے بیانات پر آخر کیسے بھروسہ کیا جائے ؟ پہلے سنگھ ان دونوں کتابوں سے برأت کا اظہار کرے ۔ ہمارے نزدیک تو سنگھ کی جو تصویر ہے وہ غالب کے لفظوں میں کچھ یوں ہے کہ :
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا