محمد قمر عارف جامعی : ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

0

محمد قمر عارف جامعی
کسی بھی شخص کے علم وفضل، تقویٰ و طہارت، توبہ و انابت، زہد و استغنا اور ولایت و کمال کی جھلک دیکھنے سے پیشتر اسے انسانی کردار کی کسوٹی پرپرکھنا چاہیے کہ جس سماج میں اس نے شب و روز گزارے ہیں، زندگی کے اوراق الٹ پلٹ کئے ہیں، گردش لیل و نہار کو نظروں سے دیکھا ہے، اس سماج و معاشرہ میں وہ کسی کی اذیت کا سبب تو نہیںبنا؟کوئی اس سے دکھی تو نہیں ہوا؟ اس کے اندر کسی کو مضطرب اور بے چین کرنے کا داعیہ تو پیدا نہیں ہوا؟ کسی کے شرف انسانیت کی اہانت تو نہیں کی؟کسی انسانی تقدس کو پامال تو نہیں کیا؟ کسی کو حقوق انسانی سے محروم کرنے میں واسطہ اور وسیلہ تو نہیں بنا؟ کسی کی عزت نفس کو اپنے تمسخر و استہزا کا حصہ تو نہیں بنایا؟ اس تناظر میں جانچنے اور اس معیار پرپرکھنے کے بعد اگر کوئی شخص کھرا اترتا ہے تو یقینا وہ ایک باکمال انسان اور ایک عظیم سپوت کہے جانے کا مستحق ہے، پھر وہ اس لائق بھی ہے کہ اس کا ذکر ہو، اس کا چرچا عام کیا جائے، اس کی زندگی کے خدو خال کو ذہنوں میں مرتسم کیا جائے، اس کے صفات زیست کی موتیوں کو دستاویز کے صفحوں پر بکھیر دیا جائے ، اس کے اسلوب حیات کو سپرد قرطاس و قلم کرکے نسل نو کو باخبر اور روشناس کر دیا جائے۔
اسی بات پرہم نے ایک ایسے انسانی سرخیل کا ذکر چھیڑا ہے جس نے خاندانی شرافت و نجابت کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، علم و فضل اور تقویٰ و طہارت کی فضا میں نشو و نما پائی، جو ولایت و کمال کے شامیانہ تلے پروان چڑھا اور تاحیات اپنے سماج و معاشرہ میں ایک عظیم انسانی سپوت بن کر رہا۔ انسانیت نوازی، باہمی ہمدردی و غمگساری، اخلاقی اقدار و صلہ ٔ رحمی، دست گیری و غریب پروری اور ان جیسی دوسری صفات جو موجودہ سماج میں خال خال نظر آتی ہیں، زندگی بھر یہ اوصاف اس انسانی سرخیل کا طرۂ امتیاز رہے۔ کاروانِ انسانیت کے اس امیر نے اپنی سماجی زندگی میں قرابت داری کا حق ادا کیا، پڑوسیوں کی خبر گیری کی محتاجوں کی دست گیری کی، بیماروں کی عیادت اور مزاج پرسی کی، قرض خواہوں کو قرضِ حسن دیا، حلم و بردباری اور حقیقت پسندی کابین ثبوت دیا، انانیت، تعصب اور معاندانہ جذبات کی رَو میں بہہ کر اصلیت و حقیقت کا گلا گھونٹنے کے بجائے رشتہ اخوت و محبت کا پاس و لحاظ رکھا، بڑوں کے احترام کو بجا لایا، چھوٹوں پر دست شفقت پھیرتا رہا، ضرورت مندوں اور تنگ دستوںکے کام آتا رہا، لا چار اور مجبور لوگوں کی بے کسی اور بے بسی کو حرف غلط کی طرح مٹاتا رہا، گرداب بلا میں پھنسے مصیبت زدہ اور ستم رسیدہ لوگوں کو ڈھارس باندھتا رہا، مہمانوں اور غربت و مسافرت کی حالت میں بھٹکتے ہوئے انسانوں کی قدر اور عزت افزائی کرتا رہا اور بالآخر ’’کلا واللہ لا یخزیک اللہ ابدا، انّک تحمل الکل و تکسب المعدوم، و تقری الضیف‘‘ کے مصداق کا مظہر اتم بن کر ان تمام قدروں اور موزونیت کا برملا اعتراف کرتا رہا۔
صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اس نے تہذیب و تمدن کی زلفوں کی سنوارا، جہالت کی تاریکیوں کو علم کی قندیلوں سے روشن کیا، ضلالت و گمرہی کے راستوں پر ہدایت و راہ یابی کا سنگ میل رکھا، بیعت واردات، درس و تدریس اور کارِ افتا کی مسندوں پر متمکن ہوا، بے کیف اور جامد و ساکت فضا میں ذکر و فکر اور توبہ و انابت کے نغموں کی گونج پیدا کر دی، بے شمار دلوں کی ویرانی اور خانماں خرابی کو مطلوبہ صفات اور تقاضے سے ہم آہنگ کرکے معمور و آباد کر دیا، مختصر یہ کہ وہ انسان کا مل جس سمت بھی گیا سکے بٹھا دیا، اسی انسانی سرخیل اور قافلۂ انسانیت کے میر کارواں کو ہم حجۃ السلف، بقیۃ الخلف، مخدوم المشائخ، پروردۂ چہار محبوباں،سرکار کلاں ابوالمسعود سید شاہ محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی جانشین شاہ سمنانی علیہ الرحمۃ والرضوان (پ1914، م1996)کے اسم ولقب سے جانتے ہیں۔ ایسی ذات کی بارگاہ میں محض لفظوں کا خراج عقیدت پیش کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جانا جہالت اور نادانی کے مترادف ہے، بلکہ ان کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر اپنے لئے جادۂ منزل بنا لینا ہم میں سے ہر ایک فرد کے لئے ازحد ضروری ہے۔
قافلۂ انسانیت کا یہ سرِخیل گو ہمارے درمیاں نہ رہا، کاروان انسانیت کا یہ امیر گو کہ ہم سے جدا ہو گیا،راہ سلوک کا یہ مسافر گو کہ اس زمیں سے کوچ کر گیا، عزم و استقلال کا یہ پیکر گو کہ ہمیںفرقت و جدائی کے احساس میں مبتلا کر گیا، علم و عمل کا یہ جوانِ رعنا گو کہ ہماری نظروں سے روپوش ہو گیا، کرۂ ارض کا یہ بلند اخلاق و بلند کردار رہنمائے دیں گو کہ زیرِ زمیں ہو گیا لیکن جاتے جاتے ایک ایسا پیغام ِ جاوداں ہمارے دل و دماغ میں نقش اور پیوست کر گیا جس نے اپنی یادوں کے حصار میں جینے کا سلیقہ بتا دیا وہ یہ کہ:
ڈھونڈھو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اے درد بتاکچھ تو ہی بتا اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوا ں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ! کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پے پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
rvr

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS