مودی کا جی ایس ٹی ماسٹر اسٹروک : عوام کیلئے ریلیف یا سیاسی تماشہ؟

0

وزیراعظم نریندر مودی کی تازہ ترین تقریر اور نئی جی ایس ٹی اصلاحات ایک بار پھر ملک کی توجہ کا محور بن کر سامنے آئی ہیں۔ مودی جی نے خلاف معمول رات 8بجے کی بجائے آج شام 5 بجے ہی قوم سے خطاب کرتے ہوئے جی ایس ٹی کے نئے ڈھانچے کو ایک تحفہ کے طور پر پیش کیا،جس میں روزمرہ استعمال کی اشیا پر ٹیکس کم کر کے 5 فیصد اور 18 فیصد کے دو بنیادی سلیب نافذکئے گئے ہیںاور سپر لگژری اشیاپر 40 فیصد خصوصی ٹیکس مقرر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اسے جی ایس ٹی بچانے کا تہوار قرار دیا اور زور دیا کہ ہر گھر اور دکان میں سودیشی اشیا کا استعمال ہو‘تاکہ ملک خود انحصار کی راہ پر گامزن ہو۔

یہ اصلاحات،جی ایس ٹی کونسل کی 56ویں میٹنگ میں منظور شدہ‘پرانے چار سلیب نظام کی جگہ لے رہی ہیںاور صارفین کیلئے لاگت کو کم کرنے اور تعمیل کو آسان بنانے کے دعوے کے ساتھ متعارف کرائی گئی ہیں۔ ضروری اشیا جیسے دودھ،دہی، آٹا، روٹی، ادویات‘ہیئرآئل،صابن،شیمپواور دیگر گھریلو استعمال کی اشیا پر ٹیکس 5 فیصد یا صفر تک کر دیا گیا ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات پر 12 فیصد سے صفر جی ایس ٹی نافذ کی گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدامات عام آدمی،کسان،متوسط طبقہ،خواتین،نوجوان اور MSMEsکیلئے ریلیف فراہم کریں گے۔

مودی جی کے خطاب میں سودیشی منتر کو بار بار دہرایا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقتصادی اقدامات کو قومی جذبات سے جوڑنا چاہتی ہے۔ ہر گھر اور دکان میں ’میڈ ان ان انڈیا‘ کو فروغ دینے کی اپیل کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی نظر آتا ہے کہ انتخابات سے پہلے شہریوں اور ریاستوں میں اچھا تاثر پیدا کیا جائے۔ مودی جی نے دعویٰ کیا کہ یہ تبدیلی متوسط طبقے،کسانوں اور نوجوانوں کو فائدہ پہنچائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی کی وصولی کا دو تہائی یعنی 64 فیصد بوجھ خط غربت کے قریب سرپٹکتے عوام اور متوسط طبقے کے کاندھوں پر ڈالا گیا ہے جب کہ ارب پتیوں سے اس کھربوں کے خزانے میں محض 3 فیصد وصول ہوا ہے۔دوسری طرف کارپوریٹ ٹیکس کو 30 فیصد سے کم کر کے 22 فیصد کر دیا گیا۔ یہ عدل ہے یا آشکارا ناانصافی؟ یہ بھی ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کی تقریب2017 کی آدھی رات کا وہ رنگا رنگ تماشاآزادی کے اعلان نصف شب کی نقل تھی۔ نہرو نے نوآبادیاتی زنجیروں سے آزادی کی نوید سنائی تھی،مودی جی نے عوام کو ایک نیم پختہ اور پیچیدہ ٹیکس نظام کے شکنجے میں جکڑنے کا اعلان کیا۔ تاریخ دونوں راتوں کو یاد رکھے گی‘مگر مختلف حوالوں سے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو اصلاحات آج ’بچت کا تہوار‘ بتائی جا رہی ہیں،کل تک انہی اصلاحات کی ضد اور انکار پر کیوں اڑے رہے؟ کیا یہ دیوالی سے پہلے بہار الیکشن کا تحفہ ہے یا واقعی ’آتم نربھر بھارت‘کی راہ میں ایک سنگ میل؟

عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قیمتوں کی دنیا میں کمی محض کاغذی اعلان ہے۔ جب ایک شے مہنگی ہوچکی ہو،تو اس کی قیمت شاذ و نادر ہی نیچے آتی ہے۔ صنعتیں پہلے ٹیکس کم ہونے کی خوشی جتائیں گی،پھر اپنا منافع محفوظ کرنے کیلئے نئے بہانے تراشیں گی۔ مودی جی نے اپنی تقریر میںکہا کہ آزادی کی تحریک کو سودیشی منتر نے تقویت بخشی‘لہٰذا ترقی کی تحریک کو بھی سودیشی ہی تقویت دے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب ان ہی کی پالیسیوں نے غیر ملکی کمپنیوں کو ہندوستانی منڈیوں کا فرمانروا بنا دیا تو آج یکایک سودیشی کا ورد کیوں؟ یہ نعرہ معیشت کو نہیں بلکہ ووٹ کو مضبوط بنانے کیلئے ہے۔ اس ملک کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ کسان‘مزدور‘چھوٹے کاروباری اور متوسط طبقہ ہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مگر جی ایس ٹی کے ان آٹھ برسوں میں اسی ریڑھ پر سب سے بھاری بوجھ ڈالا گیا۔ اب اگر آدھی رات کی خوابناک پالیسی کو دن دہاڑے ریبرینڈ کر کے ’بہاری تحفہ‘یا ’دیوالی بچت‘ کہا جا رہا ہے،تو یہ وہی پرانا دھوکہ ہے،جو نئے پیکٹ میں لپیٹ کر بیچا جا رہا ہے۔

یہ وقت حقائق کو سمجھنے کا ہے۔ جی ایس ٹی کے نام پر حکومت نے جس ناکام تجربے کو مسلط کیا‘اس کی اصلاح کو کوئی احسان نہیں بلکہ مجبوری کہا جانا چاہئے۔ عوام کو لوری نہیں،سچائی چاہئے اور سچ یہ ہے کہ یہ جی ایس ٹی 2.0 عوام کی نہیں،بلکہ صنعتکاروں کی زبردست جیت ہے،جس کا بل پھر بھی عوام ہی چکائیں گے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS