شاہد زبیری
اب جبکہ پانچ صوبوں اور پارلیمینٹ کے انتخابات میں کچھ زیادہ وقت نہیں بچا ہے بظاہر انڈیا اتحاد اتنا فعال دکھائی نہیں دے رہا جتنی مودی سرکار ۔انڈیااتحاد ایک دائو چلتا ہے سرکار کئی دائو آزماتی ہے دونوں میں شہ اور مات کا کھیل جاری ہے جب سے بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کے اوسان خطا ہو گئے ہیں ۔خود وزیر اعظم نریندر مودی پر جھلّاہٹ طاری دکھائی دیتی ہے تلنگانہ میں وزیراعظم نے گذشتہ دنوں ذات پرمبنی مردم شماری کو لے کر انڈیا اتحادپر جس طرح حملہ بولا ہے اس سے تو ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کووزیراعظم نے ہندوئو ں کو ذات برادری کے نام پر تقسیم کرنے کی ساز ش قرار دیا ہے، مگر وہ یہ بھول گئے کہ بی جے پی مسلمانوں میں اشراف اور اجلاف کی خلیج کو گہرا کر رہی ہے اور پسماندہ مسلمانوں پر ترس کھا نے کا ڈرامہ کررہی ہے ۔یہ مودی سرکار اور بی جے پی کا دہرا پیمانہ نہیں تو اور کیا ہے، ذات پر مبنی مردم شماری کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ قومی سطح پر آخری مرتبہ ذات پر مبنی مردم شماری 1931میں کرائی جا چکی ہے، جس میں 4,147 ذاتیں درج کی گئی تھیں، اس کے بعد منموہن سرکار نے 2011میں سوشو اینڈاکنامکس کاسٹ سینس ((SECCیعنی سماجی اور معاشی طور پسماندہ ذات برادریوں کی شناخت کرائی تھی اور 46لاکھ مختلف ذات برادریاںدرج کی گئی تھی ۔حال ہی میں بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی گئی ہے اس میں 215پسماندہ ذاتوں کا اندراج کیاگیاہے۔بی جے پی اور مودی سرکاراس میں اپنا نقصان دیکھ رہی ہیں جس سے نمٹنے کیلئے جہاں مودی سرکار نے او بی سی پر کئے گئے احسانات کی تشہیر کر نے ، آزاد میڈیا اور اپوزیشن کے پیچ کسنے ،یکساں سول کوڈکا نفاذ اور مغربی یوپی کی تقسیم کا شگوفہ چھوڑا ہے۔
انڈیااتحاد کی طرف سے ذات پر مبنی مردم شماری کا یہ دھوبی پاٹ مودی سرکار اور بی جے پی جھیل نہیں پارہی ہیں ان کو خدشہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ ملک کے باقی صوبوں میں بھی دراز ہو گیااورملک بھرسے قومی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑگیا تو ’ہندتوا‘کی چھتری میں بہت سے چھید ہو جائیں گے اور سنگھ پریواراوربی جے پی کے ہندو راشٹر کا خواب پورا نہیں ہوگا یہی خوف ہے کہ وزیر اعظم مودی نے تلنگانہ کے حالیہ تقریر میں کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری ہندوئوں کو بانٹنے کی سازش ہے ۔اس سازش کا مقابلہ کر نے کیلئے اور اس ایشو کو قومی سطح پر ابھرنے نہ دینے کیلئے ایک طرف جہاں مودی سرکارنے اپنے مخالف اور آزاد میڈیاو اپوزیشن جماعتوں کی مشکیں کسنے کیلئے ای ڈی کو پیچھے لگا یا ہے ، اپوزیشن کو مات دینے کیلئے پسماندہ برادریوں کی بابت مودی سرکار کے گذشتہ 9سالوںمیں لئے گئے فیصلوں اور کاموں کی تشہیر کا فیصلہ بھی لیاہے اور اپنے او بی سی سیل کو ملک بھر میں پسماندہ برادریوں کے درمیان پہنچ بنانے کیلئے اجلاس اور کانفرنسیں کرنے کی پالیسی بنا ئی ہے ۔ان کا نفرنسوں میں مودی سرکار کے ذریعہ او بی سی کمیشن کو آئینی درجہ دیئے جانے ،نیٹ میں او بی سی کوٹہ رکھے جانے ،او بی سی طلبہ کو فیلوشپ ،فوجی اسکولوں میں او بی سی ریزر ویشن ،او بی سی پروفیسروں کا ریزر ویشن اور او بی سی کے دیگر کارنامے بتائے جائیں گے اوراو بی سی کے اہم مطالبات کو پورا کئے جا نے کا فیصلہ لیا ہے، جن میں ایک مطالبہ او بی سی کریمی لیئرکادائرہ بڑھانے کابھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق قریب گزشتہ 3سال سے زیرالتوا کریمی لیئر کا دائرہ بڑھا ئے جا نے کافیصلہ مودی سرکار جلد لے سکتی ہے یہ مطالبہ او بی سی زمرہ کے طبقات کافی وقت سے کرتے آرہے ہیں ۔ سرکار کی نئی تجویز میں تنازع کا سبب بنے زرعی پیداوار سے ہونے والی آمدنی کو دائرہ سے باہر رکھا گیا ہے، سرکار کی اسکیم کے مطابق کریمی لیئر کے دائرہ کو 8لاکھ سے بڑھا کر کم ازکم 12لاکھ روپے کئے جا نے کا ہے ۔ یہ معاملہ 2021سے لٹکا ہوا ہے ۔
بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی مردم شماری سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے مودی سرکار ایک اورتیر چھوڑ نے والی ہے وہ ہے یکساں سول کوڈUCC) (کانفاذ۔بی جے پی کی پہلی کوشش گزشتہ ماہ جولائی میں اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ نافذ کر نے کی تھی، لیکن قبائل کی مخالفت اور منی پور کے حالات کی وجہ سے سرکاری کو اپنے قدم پیچھے ہٹا نے پڑگئے تھے ۔اب 4 اکتوبر کو اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر دھامی نے وزیر داخلہ امت شاہ کیساتھ اس مسئلہ پر طویل گفتگوکی، جس سے لگتا ہے کہ مودی سرکاراور بی جے پی اپنے ترکش کے اس تیر کو پھر سے چھوڑنے والی ہے ۔اترا کھنڈ سرکار نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کاسہرہ اپنے سر باندھنے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس کی مدت کار میں کئی بار توسیع کی جا چکی ہے،علاوہ ازیں لاء کمیشن بھی اس کے نفاذ کی ورزش کر چکا ہے اور ملک بھر سے آراء بھی طلب کی جا چکی ہیں، لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ قبائل کے علاوہ روزاوّل سے تمام مکاتب فکر کے مسلمان اور ملّی تنظیمیں اس کی مخالفت کرتے آئے ہیں خاص طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کھل کر اس کی مخالفت کر رہاہے ،اقلیتوں میں عیسائی اورسکھ اقلیت کیلئے بھی یکساں سول کوڈ کو لے کر کچھ خدشات ہیں ان کی طرف سے بھی مخالفت کی جا تی رہی ہے، لیکن جب کسی کی نیت بدل جا تی ہے تو کوئی دلیل اور حجت کام نہیں آتی ۔ سنگھ اور بی جے پی سے زیادہ وزیر ا عظم نریندر مودی صوبائی انتخابات اور2024کے پارلیمانی انتخابات میں کامیا بی حاصل کر نے کیلئے بے چین ہیں اور وہ کوئی کسر چھوڑنا ہی نہیں چاہتے وزیر اعظم مودی ایک سے زائد مرتبہ تیسری بار وزیر اعظم بننے کی خواہش اور عزائم کا مختلف مواقع پر اظہار کر چکے ہیں وزیر اعظم مودی نے یکساں سول کوڈ کے ایشو اسی لئے پھر سے گرمایا ان کو معلوم ہے کہ انتخابی موسم میں انڈیا اتحادیکساں سول کوڈ کی مخالفت کئے جانے کی غلطی نہیں کرسکتا ،سپریم کورٹ بھی ایک سے زائد مرتبہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی سفارش کر چکا ہے اس کیلئے آئین کی رہنما دفعہ44کی دہا ئی دی جاتی رہی ہے اسی لئے وزیر اعظم کیلئے اس کے علاوہ کوئی اور اچھا موقعہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری دھار کو کند کرنے کیلئے یکساں سول کوڈ کے ایشو کو ہوا دیں اسی لئے وزیرِ اعظم یکساں سول کوڈ کے تیر کو اپنی کمان پر چڑھا چکے ہیں موقع ملتے ہی وہ اس تیر کو چھوڑ سکتے ہیں ۔پسماندہ مسلمانوں کو شیشہ میں اتارنے کیلئے سنگھ اور بی جے پی جی جان سے لگے ہیں وزیر اعظم نے حال ہی میں جو بیان تلنگانہ میں مسلمانوں کے تعلق سے دیا ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے مسلمانوںکے پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے جبکہ گذشتہ دنوں سنگھ سر سنچالک موہن بھاگوت نے لکھنومیں سنگھ کی ورکشاپ میں لو جہاد اور مذہب کی تبدیلی کا شوشہ چھوڑا تھا اور ابھی حال ہی میںکچھ دن پہلے میرٹھ کی انٹرنیشنل جاٹ کانفرنس میں مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے یوپی کو تقسیم کئے جا نے اور مغربی یوپی کو علیحدہ صوبہ بنائے جا نے کا شگوفہ چھوڑا تو بی جے پی کے سابق ممبر اسمبلی سنگیت سوم نے سنجیو بالیان کی اس مطالبہ کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو’’ منی پاکستان ‘‘بتایا یہ شگوفہ بھی خالی از علّت نہیں ہے اس کے ڈانڈے بھی کہیں نہ کہیں ذات پر مبنی مردم شماری سے ہی ملتے ہیں اورسنجیو بالیان اور سنگیت سوم کسی نہ کسی کے اشارہ پر یہ نورا کشتی کھیل رہے ہیں سب جانتے ہیں کہ بی جے پی یو پی کے چار حصوں میں تقسیم کے دیرینہ مطالبہ کی مخالفت کرتی آئی ہے۔
اب اچانک بی جے کے ایک مرکزی وزیر اس تقسیم کا مطالبہ کررہے ہیں اور انہوں نے مغربی یو پی کو علیحدہ صوبہ بنا ئے جا نے کی بات کہی ہے تو بی جے پی کا ایک سابق ممبر اسمبلی اس مطالبہ کے پس پشت مغربی یوپی کی علیحدگی کو’’ منی پاکستان ـ‘‘ بن جا نے کا خدشہ جتا رہا ہے، اسطرح انتخابی ماحول کو پولرائز کیا جا رہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار انڈیااتحاد کے حملو ں سے بچنے کیلئے اپنے ترکش سے اور کون سا تیر چھوڑ ے گی اور انڈیا اتحاد کون سا دائو چلے گا ۔qwr