ثناء وقار احمد
(بی ایڈ ، ایم اے سائیکالوجی، ایم اے انگریزی ، ایم اے اردو)
نواب پورہ ، اورنگ آباد (مہاراشٹر)
پریشانیوں سے بھاگنا آسان ہوتا ہے
ہر مشکل وقت زندگی میں ایک امتحان ہوتا ہے
ہمت ہارنے والوں کو کچھ نہیں ملتا زندگی میں
مشکلوں سے لڑنے والے کے قدموں میں جہان ہوتا ہے
نشہ ایک لعنت ہے۔ نشہ اسلام میں حرام ہے۔ یہ ایک شیطانی عمل ہے۔ منشیات کی عادت ایک خطرناک موذی مرض ہے یہ خود انسان، اس کا گھر، معاشرہ اور پورے ملک و قوم کو تباہ کردیتی ہے۔ وطن عزیز میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بالخصوص اور پوری قوم بالعموم بری طرح سے متاثر ہورہی ہے۔ منشیات کے استعمال کی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے۔ تربیت اور علم انسان کی شخصیت کے بناؤ اور بگاڑ میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس معاملے پر غور کیا جائے تو بعض اوقات تربیت کے اثرات علم کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اور سودمند ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے اطراف میں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو ناخواندہ ہوتے مگر اپنے رویوں، معاملات اور کردار و گفتار میں انتہائی مہذب اور شائستہ اور شخصیت کے حامل ہیں۔ گھر اور ماحول کی تربیت ان کے قلب و ذہن میں پاکیزگی، معاملات میں صدق ، عزت و احترام ، رشتوں کا تقدس، وقار و متانت اور فہم و فراست جیسے اعلیٰ جوہر پیدا کردیتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ بعض اوقات کچھ خارجی عوامل بھی انسان کے اعمال و افکار اور عادات میں بگاڑ اور فساد کا سبب بنتے ہیں۔ کیونکہ انسان ایک سماجی حیوان ہے جو معاشرے سے الگ تھلک رہ کر زندگی بسر نہیں کرسکتا، یہ اس کی فکری اور خلقی مجبوری ہے۔ نتیجتاً بسا اوقات غلط ماحول اور بری تربیت کے اثرات انسان کے مزاج کی شفافیت کو مختلف غیراخلاقی کثافتوں سے آلودہ کردیتے ہیں اور پھر ایسا انسان شیطان کے لئے لقمۂ تر بن جاتا ہے۔ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا تھا : ’’اچھوں کی ملاقات اچھائی سے بہتر ہے اور بروں کی ملاقات برائی سے بدتر۔‘‘ نشہ کے لئے انسان کے جسم و دماغ کو منشیات کی ضرورت ہوتی ہے ، اگر وہ نہ لے تو جسمانی اور نفسیاتی تکلیف ہوتی ہے۔ اس میں جسم کو نشہ آور چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں جسم اور معاشرے پر اس کے مضر اثرات ہوتے ہیں۔
ہمارے علاقہ میں مختلف منشیاب کے عادی لوگوں کا تناسب کتنا ہے؟ یہ بتانا مشکل ہے لیکن شراب کا نشہ کرنے ولے کافی ہیں۔ نوجوان نسل میں روزافزروں پھیلتی نشہ کی عادت کی نشاندہی کرنا ہے۔ شراب، چرس، بھنگ ، افیون اور ہیروئن کے بعد اب ایک نیا نشہ شیشہ پینا ہے۔ یہ تباہ کن نشہ نوجوان نسل میں پھیلتا ہی جارہا ہے جو نوجوانوں کی صحت کے لئے قاتل ہے۔ جواں نسل کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ جب یہ ہی کمزور پڑنے لگے تو معاشرے کی اقدار کے انہدام کا عمل آسان ہوجاتا ہے۔ نشہ دراصل زندگی کے چیلنجوں اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا نام ہے جبکہ زندگی صبرواستقامت، حرکت و تغیر سے عبارت ہے۔ بعض نوجوان نشہ کا سہارا لیتے ہیں کہ گویا یہی ان کے غموں، محرومیوں اور فکروپریشانی سے نجات کا واحد راستہ ہے۔ نوجوان نسل بالخصوص اور پوری قوم بالعموم بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ حالات کا جبر ، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور روزافزوں مہنگائی بھی اس کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال کے بارے میں ہم بعض افسوسناک مخمصوں میں مبتلا ہیں۔ مثال کے طور پر شراب جسے ام الخبائث کہا گیا جو دینی ، طبی اور معاشی ہر حوالے سے سب سے خطرناک ترین نشہ ہے۔ مردوں میں شراب پینے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر لوگ مرض سے چھٹکارہ پانے ، نیند نہ آنے کی وجہ سے اور دردوغم بھلانے کے لئے شراب کا سہارا لیتے ہیں۔ نشہ کرنے والوں میں طلاق کا تناسب زیادہ ہوتا ہے انھیں ملازمت و تجارت وغیرہ میں تکلیف ہوتی ہے۔ ان میں سواریوں کے حادثات کا تناسب سے زیادہ ہوتا ہے۔ جسم پر شراب کے اثرات، اس کا اثر دماغ پر قابو ختم ہونے کی وجہ سے انسان کا برتاؤ قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ شراب کی وجہ سے اس کے عضلات پر قابو میں کمی آجاتی ہے۔ دماغ کا فعل متاثر ہوتا ہے۔ ذہانت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کوئی بات یاد نہیں رہتی۔ کسی بات پر توجہ مرکوز نہیں کرسکتا۔ ہر ایک کی قوتِ برداشت میں فرق نظر آتا ہے۔ جسم پر شراب کے مضر اثرات ہوتے ہیں۔ تیزابیت (Acidity) بڑھ جاتی ہے۔ بھوک نہیں لگتی۔ شراب کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا جاتا، جس کی وجہ سے حیاتین کی کمی ہوجاتی ہے۔
نوجوان نسل اور ناپختہ ذہن کے افراد کے اس تباہ کن نشہ میں مبتلا ہوجانے میں بسا اوقات خارجی عوامل بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً نوجوانوں کو اپنے مستقبل سے مایوسی ، تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں، حصول تعلیم کے بعد روزگار کی سعی لاحاصل باہمی رویوں میں سردمہری، طبقاتی حدبندیاں، خوراک و لباس کی کمی اور اچھی رہائش اور صاف ستھرے ماحول کا فقدان وغیرہ ، وہ خارجی عوامل و محرکات ہیں جنھوں نے نوجوان نسل میں نفسیاتی عوارض پیدا کردیئے ہیں۔ احساس محرومی نے ان کے قلوب و اذہان کو زیرآلود کردیا ہے۔ آج کا نوجوان کل کا معمارِ وطن ہوسکتا ہے۔ ملک و قوم کی خوشحالی، استحکام اور اس کی نظریاتی و جغرافیائی حدوں کا محافظ و نگہبان ہے ۔ جب یہ اہم ترین ستون اپنی بنیادوں سے کمزور ہونے لگے تو قوم وملک کی بقاء و سلامتی مخدوش ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے نشہ کرنے کی ابتداء لڑکپن میں ہوتی ہے۔ ایک بار اس کا استعمال شروع کرنے پر عادت کا چھوٹنا محال ہے۔اکثر لوگ عادی ہونے کے بعد اس پر قابو نہیں پاسکتے ، اس لئے یہ اہم ہے کہ نشہ کی عادت میں مبتلا ہی نہ ہو۔ اگر لڑکپن ہی میں ان کے مضر اثرات سے واقف کروایا جائے تو انھیں منشیات کے عادی بننے سے روکا جاسکتا ہے۔
نشہ کے لئے عام طور پر شراب، چرس، گانجہ ، ہیروئن ، کوکین ، تمباکو ، سگریٹ،بھنگ ، افیون ، براؤن شوگر، گٹکا ، شیشہ پینا ، نشہ آور ادویات وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت کس طرح ہماری نوجوان اور آنے والے نسلوں کے لئے زہرقاتل ثابت ہورہی ہے ۔ نشہ آور ادویات کا استعمال خواتین میں بھی برابر پھیل رہا ہے۔ منشیات کا یہ زہر ہمارے معاشرے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ملک کی دیہاتی اور شہری آبادی منشیات کا شکار ہے۔ منشیاب سے سب سے زیادہ ۱۳ سے ۳۰ سال عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہورہے ہیں۔ مغربی ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی یوتھ کلچر نشوونما پارہا ہے۔ نوجوان خود اعتمادی بڑھانے، احساسِ کمتری دور کرنے، مایوسی کم کرنے کے لئے منشیات کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
منشیات کا رجحان نئی نسل کو تباہ کررہا ہے۔ پختہ عمر کے لوگ ذہنی دباؤ سے سکون حاصل کرنے کے لئے نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ منشیات سے سماج میں فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ نشے سے عداوت (دشمنی) بڑھتی ہے۔ نشہ، عداوتیں پیدا کرتا ہے، نفرتیں پیدا کرتا ہے، اللہ کے ذکر سے دور کردیتا ہے، نماز سے دور کردیتا ہے۔انسان کے اندر اس کے نقصانات پیدا کرتا ہے۔ لوگ عام طور پر اس سے ناوقف ہیں کہ نشہ کرنا ایک نفسیاتی مرض ہے اِس لئے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کا وقت پر علاج کروانا چاہئے۔ سگریٹ کا دھواں موت کا کنواں ، سگریٹ سانس اور دمہ کو جنم دیتی ہے۔ سگریٹ مختلف قسم کے سرطان کا باعث بنتی ہے۔ سگریٹ میں نکوٹین نامی زہریلا مادہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہر قسم کے نشے سے زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ نشہ سماج کو برباد کردیتا ہے۔ نشہ اسلام میں حرام ہے، ہر وہ چیز جس سے چکر آئے وہ حرام ہے۔ یہ شیطانی عمل ہے۔ نشہ بہت بڑی لعنت ہے جو معاشرے کو خراب کررہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے منشیات سے پرہیز لازم ہے۔
قرآن اور حدیث میں ان کے استعمال سے سختی سے روکا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : ’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے یہ سب ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔سو اِن سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے منشیات کو دوسری خطرناک اور قابل نفرت شیطانی اعمال میں سے گنوایا ہے اور ہمیں ان سے پرہیز کرنے کے لئے کہا ہے۔‘‘ (المائدہ : پارہ ۷ آیت۹۱) یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ کس طرح شیطان کا ایک قابل نفرت عمل ہے کیونکہ منشیات دشمنی کے بیج بونے کے علاوہ آپ کو اپنے اصل مقصد یعنی ذکرالٰہی سے روکتی ہیں اور یہ کہ آپ کا اپنے نفس پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے۔ رسولﷺ نے منشیاب کی ممانعت کی اور ہر نشہ آور چیز حرام قرار کی۔
الغرض منشیات جرائم ہیں اور ان سے احتراز لازمی ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کو جسمانی، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی طور پر تباہ کرتی ہے۔ دورِحاضر کا سب سے بڑا اور عظیم ترین المیہ منشیات جنھوں نے زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ نشہ آور لوگ اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ایسے ناشکرگزار بندے ہوتے ہیں جو اللہ کی عطاکردہ زندگی کی قدر کرنے کی بجائے اسے برباد کرنے پر تلے رہتے ہیں اور منشیات فروش ملک و ملت کے وہ دشمن ہیں جو نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قوم فکری، روحانی اور جسمانی اعتبار سے مفلس ہوتی جارہی ہے۔ منشیات کی روک تھام کسی فرد و ادارے یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس مسئلے کو ملکی و قومی سطح پر مشترکہ انداز سے حل کیا جانا چاہئے۔ سب سے پہلے ذرائع ابلاغ ، ٹیلی ویژن، اخبارات اور رسائل کو اس لعنت کے خلاف صدق دل سے معرکہ آراء ہونا چاہئے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور ارباب اختیار کڑی نظر سے نوخیز نسل کا جائزہ لیں اور ان کو منشیات کے استعمال سے روکیں۔ اس سلسلے میں تقاریب ، ویڈیو فلمز، سوشل میڈیا سیمینار اور لیکچرروں کا اہتمام کرنا چاہئے اور منشیات کی زہرناکیوں سے آگاہ کریں۔ والدین اولاد کی تربیت کو اپنا فرض جانیں اور ان کے شب و روز کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔ زندگی کی دوڑ میں پوری قوم کو باہم تعاون کرنا چاہئے اور مثبت رویے اختیار کرنے چاہئیں تاکہ نسل نو کے اندر بھی جینے کا حوصلہ پیدا ہو اور ان کو اپنی صحیح قدر و قیمت کا احساس ہونے لگے اور وہ وطن عزیز کی معاشی، سماجی اور سیاسی اسلامی سرگرمیوں میں جوش کے ساتھ حصہ لے سکیں۔ اپنی ذات اور اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنے اور عمل کرنے سے مثبت نتائج برآمد ہوتے اور یہی ترقی یافتہ اور مہذب قوموں کا طرزِعمل ہے۔ رشتے محبت ، اخوت ، ایثار و قربانی اور ماحول کی پاکیزگی کے ساتھ ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ چنانچہ نشہ کی لت سے خود کو بچانا، ایسے ہی ضروری ہے جس طرح حیات انسانی کی بقا کے لئے حصولِ رزق لازمی اور ناگزیر ہے۔
منشیات سے جسمانی صحت کی بربادی کے ساتھ روح کا بے داغ اور شفاف آئینہ بھی غبار آلود ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں انسداد منشیات کے اداروں اور علاج گاہوں میں نشہ کے عادی افراد کے ساتھ رحمدلی ، ہمدردی اور محبت کا سلوک کیا جائے۔ انھیں یقین دلایا جائے کہ وہ اپنی قوت ارادی اور علاج سے اس عذاب سے چھٹکارا پاسکتے ہیں اور پھر سے ایک فعال اور مفید انسان بن سکتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں دینی اور روحانی فضا کی تشکیل ضروری ہے۔ اس سے اللہ کا خوف اور اسلام اور مذہبی اقدار سے وابستگی پیدا ہوتی ہے۔ منشیات کی روک تھام کے لئے یہ اہم ترجیحات ضروری ہیں۔ ملک گیر آگاہی مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں مؤثر اقدامات کرے تاکہ ملک سے نشے جیسی بدکاری کا خاتمہ کیا جاسکے۔ حکومت اس حوالے سے مزید مستعدی دکھانے کا پابند بنائے۔ منشیاب سپلائی کی روک تھام، نشہ آور افراد کو منشیات کی عادت سے نجات دلانا، عالمی و علاقائی اداروں کے ساتھ منشیات کی روک تھام کے لئے تعاون کرنا، اگر ان باتوں پر عمل کیا جائے تو یقینا ملک سے اس برائی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ لہٰذا نوجوان اپنے آپ کو ہر قسم کے نشے سے پاک رکھیں۔
میری منزلوں کو خبر دو میں خود ہی خود کو بدلوں گا
نشے سے جیت کر میں ‘ اک بار پھر سے اُبھروں گا