اسکول میں موبائل پر پابندی نئی تعلیمی پالیسی میں رکاوٹ تو نہیں؟

0

پنکج چترویدی

گزشتہ دنوں دہلی میں وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے یونیسکو کے تعاون سے تیار کارٹون کی ایک کتاب کے اجرا کے موقع پر بچوں سے سوال کیا کہ وہ کتنا وقت موبائل-کمپیوٹر پر صرف کرتے ہیں؟انہوں نے بچوں سے پوچھا کہ ان کا اسکرین ٹائم کیا ہے۔ اس سوال پر وہاں موجود بچے دائیں بائیں دیکھنے لگے۔ حالانکہ کچھ بچوں نے جھجکتے ہوئے تین سے چار گھنٹے بتایا۔ اس پر مسٹر پردھان نے کہا کہ ذہنی صحت کے لیے زیادہ اسکرین ٹائم نقصاندہ ہے۔ اس سے تین دن پہلے ہی آندھراپردیش حکومت نے اسکولوں میں فون پر پابندی لگا دی، حکومت نے یہ قدم یونیسکو کی اس رپورٹ کے بعد اٹھایا جس میں موبائل کے زیادہ استعمال سے بچوں کی ذہنی نشوونما پر منفی اثر پڑنے کی بات کہی گئی تھی۔ ریاست میں اب ٹیچر بھی کلاس میں فون نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ کووڈ سے پہلے دنیا میں فرانس جیسے ملک نے بھی تعلیم میں سیل فون پر مکمل طور پر پابندی لگائی تھی۔ کولمبیا، امریکہ، اٹلی، سنگاپور، بنگلہ دیش جیسے ممالک میں کلاس میں موبائل لے جانے پر پابندی ہے۔ ہندوستان میں فی الحال یہ عجیب لگ رہا ہے، کیونکہ ابھی ڈیڑھ سال قبل ہمارا سارا اسکولی تعلیمی نظام ہی سیل فون سے چل رہا تھا۔ یہی نہیں نئی تعلیمی پالیسی-2020 میں، جو کہ ملک میں تعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدیلی کا دستاویز ہے، موبائل اور ڈیجیٹل ڈیوائس کے بہتر استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
ویسے ہندوستان میں سستا انٹرنیٹ اور ساتھ میں کم قیمت کا اسمارٹ فون جرائم کی بڑی وجہ بنا ہوا ہے، خاص طور پر نوعمروںمیں جنسی جرائم ہوں یا مارپیٹ یا پھر شیخی بگھارنے کے لیے کی جارہی جرأت۔ موبائل کے کیمرے، ویڈیو اور اسے انٹرنیٹ کے ذریعے پلک جھپکتے ہی دنیا تک پہنچا کر لافانی ہونے کی آرزو نوجوانوں کو کئی غلط راستوں کی جانب موڑ رہی ہے، دہلی سے متصل نوئیڈا میں اسکول کے بچوں نے اپنی ہی ٹیچر کا گندا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ جذبات کی رو میں کسی کی جانب راغب ہوگئیں اسکولی لڑکیوں کے فحش ویڈیو کلپ سے انٹرنیٹ کی دنیا بھری پڑی ہے۔ اس کے برعکس کئی بچوں کے لیے انجانا راستہ تلاش کرنا ہو یا کسی پراسرار موضوع کا حل یا پھر ملک دنیا کی معلومات یا پھر اپنے خلاف ہوئی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا، ان سبھی میں ہاتھ کی مٹھی میں سمٹی دنیا کی علامت موبائل نے نئی طاقت اور راہ دی ہے، بالخصوص نوجوان لڑکیوں کو موبائل نے بے حد سہارا دیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان میں موبائل رکھنے والے بچوں کی تعداد کم ہے، خاص طور پر سرکاری اسکول میں جانے والے آدھے سے زیادہ بچے ابھی اپنے والدین کے فون سے کام چلاتے ہیں لیکن یہ بات سچ ہے کہ اگر بچے کلاس میں فون لے کر بیٹھتے ہیں، وہ بورڈ اور کتابوں کی جگہ پر موبائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو میسیج بھیج کر ہنسی مذاق کرتے ہیں یا فیس بک، انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پر لگے رہتے ہیں۔ اس سے ان کے سیکھنے اور یاد رکھنے کی رفتار تو متاثر ہو ہی رہی ہے، ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ اب وہ کھیل کے میدان میں پسینہ بہانے کی بہ نسبت ورچوئل ورلڈ میں مصروف رہتے ہیں، اس سے ان میں موٹاپا، کاہلی آرہی ہے، آنکھیں کمزور ہونا، یادداشت کمزور ہونے کے بھی اثرات نظر آئے۔پہلے بچے جس گنتی، پہاڑے، اسپیلنگ یا حقائق کو اپنی یادداشت میں رکھتے تھے، اب وہ سرچ انجن کی چاہت میں انہیں یاد نہیں رکھتے، یہاں تک کہ کئی بچوں کو اپنے گھر کا فون نمبر تک یاد نہیں تھا۔ سب سے بڑی بات سیل فون کے ساتھ بچہ بھیڑ کے درمیان تنہا رہتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ اجتماعیت یا بقائے باہمی کے احساس سے دور ہو جاتا ہے۔ زیادہ غصہ آنا یا پرتشدد ہونا اسی رجحان کے برے نتائج ہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ اسکول میں فون کئی قسم کی برائیوں کو جنم دے رہا ہے۔ آج فون میں کھیل، موسیقی، ویڈیو جیسے کئی ایسے ایپ موجود ہیں جن میں بچے کا دل لگنا ہی ہے اور اس سے اس کی تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امتحان میں دھوکہ دہی اور نقل کا ایک بڑا اوزار یہ بن گیا ہے۔ یہی نہیں اس کی وجہ سے جرائم بھی ہو رہے ہیں۔ بے لگام فحاشیت اسمارٹ فون پر نوعمر بچوں کے لیے سب سے بڑا زہر ہے۔ چونکہ یہ فون مہنگے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اکثر بہتر فون خریدنے یا زیادہ انٹرنیٹ پیک خریدنے کے لیے بچے چوری جیسے کام بھی کرنے لگتے ہیں۔ اسکولوں میں فون لے کر جا رہے بچوں میں سے بڑی تعداد دھمکیوں کو بھی جھیلتی ہے، کئی ایک استحصال کا شکار بھی ہوتے ہیں۔
موبائل، اسکول اور تعلیم کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ جس ملک میں موبائل کنکشن کی تعداد ملک کی کل آبادی کے تقریباً نزدیک پہنچ رہی ہو، جہاں نوعمرہی نہیں 12 سال کے بچے کے لیے موبائل اسکولی بستے کی طرح لازمی بنتا جا رہا ہے، وہاں بچوں کو ڈیجیٹل لٹریسی،تجسس، تخلیقی صلاحیتوں، پہل اور سماجی مہارتوں کی ضرورت ہے۔ ہم کتابوں میں پڑھاتے ہیں کہ گائے رنبھاتی ہے یا شیردہاڑتا ہے۔ کوئی بھی ٹیچر یہ سب اب موبائل پر آسانی سے بچوں کو دکھا کر اپنے سبق کو کم الفاظ میں آسانی سے سمجھا سکتا ہے۔ موبائل پر سرچ انجن کا استعمال، ویب سائٹ پر دستیاب مواد کی یہ نشاندہی کہ کون سی چیز تصدیق شدہ حقائق پر مبنی نہیں ہے، اپنے سبق میں پڑھائے جارہے مقام، آواز، رنگ، شکل کو تلاش کرنا اور سمجھنا پرائمری تعلیم میں شامل ہونا چاہیے۔ کسی منظر کو تصویر یا ویڈیو کے طور پر محفوظ رکھنا ایک فن کے ساتھ ساتھ احتیاط کا بھی سبق ہے۔ میں نے اپنے راستے میں وُڈپیکر دیکھا، یہ محکمۂ جنگلات کے لیے اطلاع ہو سکتی ہے کہ ہمارے یہاں یہ پرندہ بھی آگیا ہے۔ ساتھ ہی آوازوں کو ریکارڈ کرنا بھی اہم کام ہے۔ موبائل کا صحیح طریقے سے استعمال خود کو ٹیچر کہنے والوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ہمارے یہاں بچوں کو موبائل اسٹیک استعمال کا کوئی سبق کتابوں میں ہے ہی نہیں۔
ہندوستان میں تعلیم کا حق اور کئی دیگر قوانین کے ذریعے بچوں کے اسکول میں داخل ہونے کے اعداد و شمار اور شرح خواندگی میں اضافہ یقینا حوصلہ افزا ہیں لیکن جب معیارتعلیم کی بات آتی ہے تو یہ اعداد و شمار ہمیں شرمانے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں آج بھی 10 لاکھ ٹیچروں کی کمی ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے میں ڈیجیٹل میڈیم کا کامیاب کردار کورونا کے دور میں دیکھا جا چکا ہے۔
ویسے بغیر کسی سزا کے آندھراپردیش کا قانون کتنا کارگر ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ڈیجیٹل ورلڈ پر مارڈن ہو رہے اسکولوں میں اس قدم سے ایک بحث ضرور شروع ہو گئی ہے، خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ناخواندگی، عدم مساوات، بے روزگاری اور غربت سے مایوس نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جہاں آٹھویں کلاس کے بعد اسکول سے ڈراپ آؤٹ بہت زیادہ ہے، لیکن کئی ریاستوں میں اسکول کے ماسٹر کو اسمارٹ فون پر سیلفی کے ساتھ حاضری لگانا لازمی ہے، ایسے ملک میں اسکول میں بچے ہی نہیں ٹیچر کے بھی سیل فون کے استعمال کی حد، پابندیاں ضرور نافذ ہونی چاہئیں، افسوس ہے کہ ہندوستان کا سپریم کورٹ گزشتہ 6 ماہ سے حکومت کو فحش ویب سائٹ پر پابندی کی ہدایت دے رہا ہے اور حکومت اس پر بے توجہی سے کارروائی کرتی ہے اور اگلے ہی دن وہ فحش سائٹس پھر کھل جاتی ہیں، ملک کی ریاست جھارکھنڈ کے جام تاڑہ ضلع کے علاقوں میں ناخواندہ نوجوان موبائل سے بینک فراڈ کا بین الاقوامی گروہ چلاتے ہیں لیکن حکومتیں بے بس رہتی ہیں۔ ایسے میں ہمارے یہاں موبائل پر کلاس میں مکمل پابندی اور لازمی قرار دینے کے درمیان ہم آہنگی جیسے معاملے پر تمام فریقوں کے درمیان بحث ضرور ہونی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS