عزیز قریشی
’’ناپاک ارادے ،مجرمانہ منصوبہ بندی، فرقہ پرستی کے تعصّب میں ڈوبی ہوئی گندے نالے کی بدبو پیدا کرنے والی سوچ، غیر انسانی ،غیر جمہوری اور خون پینے والے درندوں کی مانند شکار کرنے والے جنگلی جانوروں کی حملہ آ وری جو پچھلے ستّر سالوں سے موقع کی تلاش کر رہی تھی آخر کار کامیاب ہو گئی، اور بی جے پی کی فرقہ پرست حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کر دیا ،جو آنجہانی اندرا گاندھی کا مسلمانوں کو دیا گیاحق لاثانی تحفہ تھا ، جس کے لئے مسلم قوم نے برسوں تک جدوجہد کی تھی۔۔۔۔لیکن یہ بزدلانااور نامردانہ حملہ آخری نہیں ہے بلکہ ایک اخلاق سے نیچے گری ہوئی حکومت کا پہلا وار ہے، اور آئندہ ہونے والی سازش کی طرف ہونے والا اشارہ ہے، اور ان ناپاک منصوبوں کی داستان کہتا ہے ، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں۔ اور پچھلے ستّتر سالوں سے اسی عمل میں مصروفِ کار ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف اکیلی ایک یونیورسٹی نہیں ہے۔بلکہ غیر منقسم ہندوستان اور دنیا کے دوسرے ہزاروں طالب علموں کی مادرِدرس گاہ ہے جس کا شاندار ماضی اور عظیم الشان مستقبل ہے جو پچھلے ستّر سال سے اپنے وجود اور بقاء کی لڑائی لڑ رہی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کے ماضی اور مستقبل کی تاریخی قربانیوں، ثقافت، ترقّی ، علم و ادب ، دانشوری، تہذیب و تمدّن اور آزادی کی تحریک میں شمولیت کی ایک ایسی کہانی ہے، جسے مسلمانوں نے اپنے خون ، پسینہ سے تاریخ کے اوراق پر آراستہ کی ہے۔
سر سید رحمتہ اللہ علیہ کی ساری زندگی جد و جہد اور محنت، ایمانداری ، دانشوری قیادت کا زندہ جاوید نمونہ اور ثبوت ہے، جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم ، ترقّی اور جدوجہد کی ایک نئی راہ دکھائی اور انہیں ایک زندہ اور متحرک قوم بنا دیا اگر سر سید مرحوم نہ ہوتے تو مسلمانوں کی ساری قوم تیسرے اور چوتھے درجے کے سرکاری ملازمین کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھتی اور صرف انگریزوں اور ہندئوں کے ما تحت غلام بن کر رہ جاتے۔
آزادی کی تحریک میں بھی سر سید کے بتائے ہوئے راستے پر ہندوستان کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں اور قوم پرست مسلمانو ںکی ایک لمبی قطار ہے جس نے ہندوستان کی سیاست اور حکومت میں ایک لا فانی اور طاقت ور کردار ادا کیا ہے۔ ترکِ موالات کی تحریک کے دوران جیسا کہ کہا جاتا ہے کی بنارس کی یونیورسٹی میں وہاں کی انتظامیہ نے مہاتما گاندھی جی کو داخل نہیں ہونے دیا گیا اور وہاں کی انتظامیہ نے اپنے طلبہ کو آزادی کی اس تحریک میں شامل نہیں ہونے دیا۔لیکن جب مہاتما گاندھی جی علی برادران، محمد علی جوہراور شوکت علی کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آئے تو ایک آواز پروہاں کی انتظامیہ کی ناپاک کوشش کے با وجود یونیورسٹی بند کر دی گئی اور ہزاروں طلباء اور طالبات نے اپنے مستقبل کو داؤں پر لگاتے ہوئے آزادی کے جہاد میں شریک ہو گئے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین ہال میں محمد علی جنا ح کی لگائی گئی تصویر پر اعتراض کیا گیا اور اسے ہٹانے کی مانگ کی گئی۔ یہ تصویر اس وقت لگائی گئی تھی جب جناح ایک قوم پرست لیڈر تھے اور کانگریس میں گاندھی جی کے بعد ان کا نام جواہرلال نہر و سردار پٹیل جیسے قد آور رہنماؤں کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ان کی تصویر ہٹانے کے معاملے کو ایک ایشو بنایا گیا جو ہر طرح سے ناجائز تھا، اور میں بلا کسی ڈر کے اعلان کرتا ہوںکہ ہر گز ہر گزمحمد علی جنا ح کی تصویر جو ایک قوم پرست لیڈر کی حیثیت سے لگائی گئی تھی ، وہاں سے نہ ہٹائی جائے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علم و ادب ، ثقافت اور آزادی کی جد و جہد میں حصّہ لینے کی ایک نا قابل فراموش داستان ہے، جس کے لئے مسلمانوں کو ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی مذہب کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ایک وفادار شہری ہونا چاہئے اور اپنے ملک کی جمہوریت اور سیکولرحکومت اور آئین اور تحفّظ مساوات اور انسانی قدروں کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔اپنے ملک کی عظمت اور ترنگے جھنڈے کی عزّت قائم رکھنے کے لئے ہر مسلمان کو اپنے خو ن کاآخری قطرہ بہانے اور آخری سانس تک جہاد کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ لیکن جہاں سوال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بقاء اور وجود کو بچانے کا ہے اس کے لئے ہرمسلمان کو تمام ممکن قانونی ،جمہوری اور پر امن طریقہ اپنانے میں کوئی گریز نہیں کرنا چاہئے۔اور ملک کے ہر حصّے میںمرکزی حکومت کے ان ناپاک ارادوںکے خلاف جنگ چھیڑ دینا چاہئے اور حکومت کے ناپاک ارادوں کی مضبوطی کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے اور موجودہ حکومت کو یہ بات منوا دینا چاہیے کہ اپنی مادرِ درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لئے اگر انہیں پھانسی کا پھندا بھی پہننا پڑے ہندوستانی مسلمان کا بچّہ بچّہ اس قربانی اور شہادت کے لئے تیار ہے۔ لیکن اپنی تاریخ کے اوراق کو مٹانے کی ہر کوشش کی ہر قدم پر مخالفت کرے گا۔
مرکزی حکومت کی ناپاک پالیسی کی مخالفت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کے ایمان ، مذہب ، تاریخ، اور غیرت کے لئے ایک چیلنج ہے۔جس میں کسی بھی کوتاہی کے لئے تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔مجھے اس موقع پر اتر پردیش کے سابق ڈی۔ جی۔ پولیس جناب رضوان احمد کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو حسبِ حال ہے۔
شب و روز بجلیوں کا یہ طواف جارحانہ
کوئی شاخ ہے چمن میں جو ابھی جلی نہیں ہے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کے لئے زندگی اور موت کی جد وجہد ہے یہ ان کی تاریخ، حمیت ، غیرت ، خود داری ، اور شان کا نشان ہے اس کے لئے بچے بچے کو قربان ہونے کے لئے تیار رہنا پڑے گا ۔ مستقبل کا مورخ اپنا قلم ہاتھوں میں لئے ہندوستانی مسلمانوں کے عمل اور کردار کی داستان لکھنے کا انتظارکر رہا ہے ،کیا ہم اسے مایوس کر دیں گے؟؟؟
( مضمون نگار سابق گورنر اتراکھنڈ،
میزورم ، اتر پردیش ہیں)