ندیم خان
نئے فوجداری قوانین کو حکومت نے ایک انقلابی قدم اور استعماری قوانین میں مؤثر اصلاحات کا نام دیا ہے۔ان قوانین کی کچھ جزوی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اس کے منفی اثرات عام شہریوں کی آزادی کو ختم اور اقلیتی برادریوں کے لیے شدید خطرات کا باعث بنیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں تفریق اور امتیاز و تعصب کا رجحان پہلے سے ہی پنپ رہا ہے، ان نئے فوجداری قوانین سے اس رجحان کو مزید قوت ملے گی اور عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول پیچیدہ ہوجائے گا۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو( این سی آر بی) اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ہندوستان میں امتیازی سلوک اور من مانے طریقے سے کسی کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک ریاست اترپردیش کو ہی لے لیں تو2018میں پورے ملک میں احتیاطی حراستوں(preventive detention) کے جتنے معاملات درج کیے گئے، ان کی نصف تعداد صرف اترپردیش میں تھی۔ اسی طرح دہلی کی ایک معروف یونیورسٹی نیشنل لاء یونیورسٹی کی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ موت کی سزا پانے والے قیدیوں میں سے74فیصد کا تعلق پسماندہ طبقات اور مسلم سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں سے ہے۔ جبکہ جرائم تقریباً تمام ہی برادیوں میں ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجداری قوانین کا دائرہ کمزوروں، مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کے گرد ہی کھینچا جاتا ہے۔
سال2020کے دہلی فسادات کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کھلے عام تعصب کا مظاہرہ کیا۔ اس فساد میں دونوں طبقے کی طرف سے تشدد کے شواہد ملے مگر بیشتر گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں۔ یکطرفہ گرفتاریوں اور امتیازی سلوک کو جواز فراہم کرنے کے لیے ’’یو اے پی اے‘‘ قانون کا سہارا لیا گیا۔ یہ قانون دراصل غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا مگر اب سرکاری ادارے اسے اپنے فائدے کے لیے سیاسی مخالفین کو دھمکانے اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس کا تذکرہ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ اور ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘کی تحقیقاتی رپورٹوں میں بھی ملتا ہے کہ ’’یو اے پی اے‘‘ کو مسلمان سمیت دیگر اقلیتوں کو بغیر کسی مقدمے کے طویل مدت تک حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
وزارت داخلہ کے ایک اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2015-2018کے درمیان ’’یو اے پی اے‘‘ کے تحت گرفتار کیے گئے افراد میں سے تقریباً75فیصد کا تعلق اقلیتی برادریوں سے تھا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ حراست میں رکھنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ ’’یو اے پی اے‘‘کا استعمال جس طرح سے من مانے ڈھنگ سے کیا جاتا رہا ہے، اسے نئے قوانین سے خارج کردینا چاہیے لیکن حکومت نے اسے برقرار رکھ کر عوام میں تشویش پیدا کردی ہے۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز(CSDS)کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ 50فیصد پولیس اہلکاروں نے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا۔ اس کا نمونہ2020میں سی اے اے احتجاج کے دوران دیکھا گیا جس میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبا و کارکنوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے اس کا استعمال ہوا۔اسی طرح ہاتھرس عصمت دری معاملے کی رپورٹنگ کے لیے جاتے ہوئے صحافی صدیقی کپن کو ’’یو اے پی اے‘‘کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ اشارہ ہے کہ اس قانون کا بے جا استعمال خوب ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں ہجومی تشدد، نفرت انگیز جرائم اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا رجحان عام ہے۔ عموماً گئوکشی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی لنچنگ اور ان کے مذہبی و ثقافتی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ’’انڈیا اسپیڈ‘‘ کی 2019میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2017 تک گائے سے متعلق تشدد میں مارے جانے والوں میں 84فیصد مسلمان تھے۔ ان حملوں میں 97فیصد 2014 کے بعد ہوئے۔ اب تو اس میں مزید اضافہ ہوا ہے جس سے ملک کا ہر شہری پریشان ہے۔ جب کبھی تعصب و امتیازی سلوک کا شکار فرد، مجرمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا چاہتا ہے تو اسے متعدد رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجرموں کی طرف سے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پولیس بھی ان کی ایف آئی آر درج کرنے میں ہچکچاتی ہے۔ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘نے متعدد ایسے واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے جہاں پولیس نے مقدمات درج کرنے سے انکار کیا یا جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔
حالیہ دنوں فوجداری کے جو نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، ان میں ’’بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا( بی این ایس ایس)‘‘ کی دفعہ173 میں تشریح کی گئی ہے کہ کسی بھی معاملے کی ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے معاملے کی تصدیق کے لیے ابتدائی انکوائری کی جائے گی۔ یہ شق پولیس کو ایف آئی آر کے اندراج میں ٹال مٹول یا سرے سے انکار کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ پولیس کا ایف آئی آر درج کرنے میں ٹال مٹول عام بات ہے، جیسا کہ 2017 میں پہلو خان اور 2015 میں اترپردیش کے دادری ضلع میں محمد اخلاق کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک تو کسی عام آدمی کے لیے ایف آئی آر درج کرنا پہلے سے ہی مشکل تھا، اس شق نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ نئے قوانین میں تحفظات اور نگرانی کا فقدان ہے۔ اس سے تعصب، امتیازی سلوک جیسے معاملے کا حل مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان خدشات کو دور کرنے کے لیے فوری اقدام کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف اور مساوات کے اصولوں کو برقرار رکھا جائے گا۔
(مضمون نگار ’اے پی سی آر‘اور اسپیکٹ فاؤ نڈیشن سے وابستہ انسانی حقوق کے کارکن ہیں)