ماسکو، (یو این آئی) : 20ویں صدی کے سب سے بااثر سیاستدانوں میں سے ایک اور سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف کا ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر 91برس تھی۔ گلاسنوسٹ (کھلا پن) اور پیرسٹروئیکا (تبدیلی) کے تصورات متعارف کرانے والے گورباچوف کے سر امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کو بہتر
بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ کا پرامن خاتمہ کرنے کا سہرا ہے۔ اے بی سی نیوز کے مطابق گوربا چوف کا انتقال سینٹرل کلینیکل اسپتال میںہوا۔وہ
’شدید اور طویل مدت سے بیماری‘میں مبتلا تھے۔ اسپتال نے منگل کو ان کی موت کی اطلاع دی۔ گورباچوف 1985میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل
سکریٹری تھے ۔ انہیں ماضی کے سوویت یونین کو دنیا کےلئے کھولنے اور ملک میں اصلاحات کا ایک سیٹ پیش کرنے کےلئے یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم وہ سوویت یونین
کے آہستہ آہستہ خاتمے کو روکنے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں جدید روس کا عروج ہوا۔
دنیا بھر کے سیاست دانوں نے مسٹر گورباچوف کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹیریس نے مسٹر گورباچوف کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا “مسٹر میخائل گورباچوف ایک الگ طرح کے
سیاست دان تھے ۔ دنیا نے ایک عظیم عالمی رہنما، ایک پرعزم کثیرالجہتی اور امن کے انتھک حامی کو کھو دیا ہے ”۔روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مسٹر گورباچوف
کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ یہ اطلاع ان کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روسی خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس اور بی بی سی کو دی۔امریکی
صدر جو بائیڈن نے مسٹر گورباچوف کو ایک “نایاب لیڈر” کے طور پر بیان کیا اور ایک منفرد سیاستدان کے طور پر ان کی تعریف کی، جن کے پاس سرد جنگ
کے تنا¶ کے درمیان “ایک الگ مستقبل کا وژن کا تصور تھا”۔یورپی یونین کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے مسٹر گورباچوف کو ایک قابل اعتماد اور قابل احترام
رہنما کے طور پر بیان کیا جنہوں نے “ایک آزاد یورپ کے لیے راستہ کھولنے کا کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وراثت وہ ہے جسے ہم فراموش نہیں کریں گے
”۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مسٹر گورباچوف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسٹر گورباچوف کی ہمت اور دیانت کی تعریف کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا “یوکرین میں مسٹر پوتن کی جارحیت کے وقت، سوویت سماج کو کھولنے کے لیے ان کا انتھک عزم ہم سب کے لیے ایک مثال ہے ”۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مسٹر گورباچوف 1985میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور روس کے ڈی فیکٹو لیڈر بنے ۔ اس وقت ان
کی عمر 54برس تھی۔ مسٹر گورباچوف کو پولٹ بیورو کے نام سے مشہور حکمران کونسل کے سب سے کم عمر رکن بننے کا اعزاز حاصل ہے ۔ بہت سے عمر
رسیدہ رہنما¶ں کے بعد، چند رہنما¶ں نے عالمی نظام پر اتنا گہرا اثر ڈالا تھا۔ سوویت معیشت نے امریکہ کے ساتھ رہنے کے لیے برسوں تک جدوجہد کی، اور
ان کی پیریسٹوئیکا کی پالیسی نے ملک کو چلانے والے نظام میں کچھ اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ہتھیاروں تک رسائی کو کنٹرول کرنے
کے لیے امریکہ کے ساتھ معاہدہ، مشرقی یورپی ممالک کے کمیونسٹ حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے پر مداخلت کرنے سے انکار اور افغانستان میں خونی سوویت
جنگ کا خاتمہ جیسے اہم اقدامات کیے تھے ۔بی بی سی کے مطابق مسٹر گورباچوف کی کھلے پن کی پالیسی نے لوگوں کو حکومت پر اس طرح تنقید کرنے کی اجازت
دی جس کا پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس نے ملک کے بہت سے علاقوں میں قوم پرستانہ جذبات کو بھی اجاگر کیا، جو بالآخر ملک کے استحکام کو کمزور کر
کے اس کے زوال کا باعث بنا۔ سال 1991کمیونسٹ انتہا پسندوں کی جانب سے بغاوت کی ایک شرمناک ناکام کوشش کے بعد، مسٹر گورباچوف نے سوویت یونین
کو تحلیل کرنے اور اقتدار چھوڑنے پر اتفاق کیا۔مسٹر گورباچوف کو مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات میں اصلاحات کے معمار کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، جس
نے 1991میں سرد جنگ کے خاتمے کے لیے حالات پیدا کیے تھے ۔ سوویت یونین، امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کے درمیان گہری کشیدگی کو کم
کرنے کے لیے کام کیا۔ انہیں 1990میں “مشرق اور مغربی تعلقات میں بنیادی تبدیلی میں ان کے اہم رول کے لئے ” نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ لیکن
1991کے بعد ابھرنے والے نئے روس میں انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے تعلیمی اور انسانی ہمدردی کے منصوبوں پر توجہ مرکز
کردی۔ مسٹر گورباچوف نے 1996میں سیاسی زندگی میں واپس آنے کی کوشش کی اور صدارتی انتخابات میں محض 0.5فیصد ووٹ حاصل کیے ۔سابق
امریکی صدر رچرڈ نکسن کی حکومت میں وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دینے والے ہنری کسنجر نے بی بی سی کو بتایا کہ مسٹر گورباچوف کو تاریخ میں
ایک ایسے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ان تاریخی تبدیلیوں کا آغاز کیا جو نوع انسانی اور روسی عوام کے مفاد میں تھیں۔
مسٹر گورباچوف کی حکومت کے ساتھ جرمنی کے تعلقات قائم کرنے کے معاملے پر بات کرنے والے مسٹر جیمز بیکر نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ تاریخ مسٹر
میخائل گورباچوف کو ایک عظیم انسان کے طور پر یاد رکھے گی جنہوں نے اپنی عظیم قوم کو جمہوریت کی جانب گامزن کیا۔ لیکن بہت سے روسیوں نے انہیں اس
اتھل پتھل کے لیے کبھی معاف نہیں کیا جو روس اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بعد ملک کے زوال کا باعث بنا۔ ان کی صحت میں حالیہ برسوں میں گراوٹ آئی
تھی۔بی بی سی نے اپنی رپورٹ کہا کہ جون میں بین الاقوامی میڈیا نے بتایا کہ وہ گردے کی بیماری میں مبتلا ہیں، حالانکہ ان کی موت کی وجہ کا اعلان نہیں کیا گیا
تھا۔روس کی خبر رساں ایجنسی تاس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انہیں ماسکو کے نووڈیویچی قبرستان میں دفن کیا جائے گا، جس میں کئی نامور روسی مدفون
ہیں۔ انہیں ان کی اہلیہ رائیسہ کے پہلو میں دفن کیا جائے گا جو 1999میں لیوکیمیا کی وجہ سے انتقال کر گئی تھیں۔
سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف کا انتقال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS