دنیا میں ایک جگہ کوئی بڑی سرگرمی ہوتی ہے، کچھ بڑی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے اثرات دوسرے مقامات پر پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسی لیے ایک جگہ کے حالات کی تبدیلی کو اسی جگہ تک محدود کرکے نہیں دیکھا جاتا۔ شام میں حالات کی تبدیلی کو بھی شام تک ہی محدود کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ شام کے حالات کیوں بگڑے؟ ان ہی ملکوں کے حالات کیوں اس حد تک بگڑے کہ وہاں کے سربراہوں کو یا تو مار دیا گیا یا عہدے سے مستعفی ہونا پڑا؟ دسمبر 2010 میں تیونس میںگریجویٹ نوجوان محمد البو عزیزی نے حالات سے تنگ آکر خودسوزی کی کوشش کی تھی۔ اسے تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے ایک معمولی واقعہ سمجھا اور جب اس کی سنگینی کا احساس کیا تب تک حالات ان کے قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ تیونس کے بے روزگار نوجوانوں نے خود کو محمد البو عزیزی کی جگہ رکھ کر دیکھا، وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا ساتھ ان لوگوں نے دیا جو حالات سے تنگ تھے، یہ چاہتے تھے کہ زین العابدین بن علی اقتدار کی باگ ڈور چھوڑ دیں۔ عوامی احتجاج کے بڑھتے طوفان کے سامنے زین العابدین بن علی ٹک نہیں سکے۔ انہیں تیونس سے بھاگنا پڑا۔ عوامی احتجاج کی لہر نے سرحد کراس کی۔ کئی ملکوں کے حالات خراب ہوئے۔ لیبیا کے سربراہ کرنل معمر قذافی کو مار ڈالا گیا۔ انہیں امریکہ اور یوروپی ممالک کی مخالفت کی وجہ سے جان گنوانی پڑی یا کسی اور وجہ سے، یہ بحث کا موضوع نہیں رہ گیا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک ہٹائے گئے، لوگوں نے جمہوری طریقے سے اپنا لیڈر چنالیکن انہیں فوجی بغاوت میں برطرف کر دیا گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ان کے لیے اپنے مفاد سے زیادہ کسی ملک کے جمہوری نظام کی اہمیت نہیں۔ اسی مفاد کے ٹکراؤ کی وجہ سے بشارالاسد کے وہ خلاف رہے۔بشار کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ ڈکٹیٹر ہیں، ان کے والد نے بھی جمہوری انداز میں حکومت نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کس ملک میں جمہوریت ہے؟ بشار جمہوریت پسند نہیں تھے، جمہوری انداز میں حکومت نہیں کی، اقتدار بچانے کے لیے شام کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا، یہ صحیح ہے اور صحیح یہ بھی ہے کہ شام کے حالات کے لیے وہ تنہا ذمہ دار نہیں۔ شام میں امن بحال کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے کتنی سنجیدگی دکھائی؟ خطے کے عرب ممالک نے کتنی جدوجہد کی کہ شام کے لوگوں کو جانیں نہ گنوانی پڑیں، شام کو صبح امن کا انتظار نہ کرنا پڑے؟ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان اپنے ملک کو سلطنت عثمانیہ کے دور میں لے جانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، مسلمان مسلمان کرتے رہتے ہیں، جہاں کہیں مسلمانوں کا ایشو ہوتا ہے، بیان بازی سے گھریلو سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں، اردگان نے غزہ جنگ اور اہل غزہ پر بیان بازیوں کا سلسلہ جاری رکھ کر بھی ایسا ہی کیا ہے لیکن اپنے ہی ملک کے کردوں کے ساتھ ان کی حکومت کا کیا سلوک رہا ہے، شام میں ان کا کیسا رول رہاہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ اردگان کی اسلام پسندی بھی عالمی برادری نے دیکھ لی ہے، اقتدار پسندی بھی۔
یہ کہنے میں تامل نہیںکہ تیونس کی لہر جب شام پہنچی تھی،مارچ 2011 سے وہاں کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے تھے تو یہ پرامن ملک پراکسی وار کا میدان بن گیا۔ امریکہ،اس کے اتحادی یوروپی ممالک، خطے کے بیشتر عرب ممالک بشارکے خلاف تھے جبکہ روس، ایران اور ان کے حامی بشارکی حمایت میں۔ اسی لیے بشار کی شکست کو روس کی سبکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ، یوروپی ممالک، خطے کے اسرائیل حامی عرب ممالک کا اس شکست سے خوش ہونا فطری ہے۔ بشار کے اقتدار سے ہٹ جانے سے حزب اللہ کی پہلی جیسی طاقت نہیں رہ جائے گی، اس کا اثر حماس پر پڑے گا، غزہ پر پڑے گا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ مستحکم ہوگا مگر اس خطے میں اس کا استحکام روس، چین، ایران اور ان کے حامیوں کو گوارا نہیں ہوگا۔ بشار نے روس میں جاکر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ روس سے ان کے تعلقات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ بشار نے اقتدار گنوایا ہے مگر دعوے سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ ان کے اثرات بھی اس ملک سے ختم ہو گئے ہیں۔ اسی لیے خانہ جنگی کے ختم ہونے کا نہیں، بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اب نشانے پر ایران کو لیا جائے گا مگر ایسا ہوا تو مشرق وسطیٰ تباہ ہو جائے گا۔