مشرق وسطیٰ: حالات بدلنے کا اندیشہ

0

جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے، ختم کرنا نہیں۔ یہ بات نئی نہیں ہے۔ اس کے باوجود جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ ابھی یوکرین جنگ چل رہی ہے۔ غزہ میں فی الوقت کسی حد تک امن ضرور نظر آرہا ہے مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ امن کب تک قائم رہے گا۔ قیام امن کی امید امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات سے پیدا ہوئی تھی اور اب انہی کے بیانات سے یہ لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے آنے والے دن چنوتی بھرے ہوں گے۔

ٹرمپ نے امریکہ کے صدارتی انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران یہ بات ایک سے زیادہ بار کہی تھی کہ ان کے صدر بن جانے پر یوکرین اور غزہ کی جنگ ختم ہوجائے گی۔ ان دونوں جنگوں کو ختم کرانے کے لیے ان کے پیش رو جوبائیڈن کی پالیسی اطمینان بخش نہیں تھی، اس لیے ان لوگوں نے بھی ٹرمپ کو ووٹ دیا جن کا ووٹ انہیں پڑنے کی زیادہ امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹرمپ نے تاریخی جیت حاصل کی۔ صدر امریکہ منتخب ہوجانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بات واضح الفاظ میں کہی کہ یوکرین اور غزہ جنگوں کو وہ ختم کرائیں گے اور کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے کے لیے حماس پر زور دیا، اسرائیل پر یہ دباؤ بنایا کہ وہ حماس سے امن معاہدے کے لیے تیار ہو۔ اس سے غزہ میں کچھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی ہوئی۔ حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کے بدلے اسرائیل نے فلسطینیوں کو رہا کرنے کی ابتدا کی۔ اس سے ایسا محسوں ہوا کہ ڈونالڈ ٹرمپ امن کے پیغامبر بن کر آئے ہیں جبکہ حماس اور اسرائیل کے معاہدے سے قبل جب ٹرمپ نے صدر امریکہ کا حلف بھی نہیں لیا تھا، مائیک ہکابی کو اسرائیل میں امریکہ کا سفیر نامزد کر دیا تھا اور ہکابی نے ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ بے شک ٹرمپ کی مدت صدارت میں مغربی کنارہ پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ممکن ہے۔ یہ بات چونکانے والی تھی اور ان بیانات سے مختلف تھی جو ٹرمپ غزہ جنگ کے سلسلے میں دیتے رہے تھے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ مائیک ہکابی نے یوں ہی بیان نہیں دیا تھا۔ غزہ اور مغربی کنارہ کے سلسلے میں ہی نہیں، مشرق وسطیٰ کے سلسلے میں بھی ٹرمپ کے پاس کوئی پلان ہے اور وہ اپنی مدت صدارت میں اسے عملی جامہ پہنانے کی ہرحال میں کوشش کریں گے۔

دراصل امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اردن اور مصر سے یہ کہا ہے کہ وہ غزہ کے مزید فلسطینیوں کو پناہ گزینوں کے طور پر قبول کریں؟ ان کا کہنا ہے کہ وہ ’غزہ میں الگ انداز سے تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔‘ بات اگر اتنی ہی ہوتی تو تشویش کی کوئی بات نہ ہوتی، ٹرمپ کے جذبے کو سلام کیا جاتا مگر اسی کے ساتھ بائیڈن نے2,000 پاؤنڈ یعنی 907 کلو بم کی جو سپلائی روک دی تھی، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسے سپلائی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اجازت ٹرمپ نے کیوں دی؟

غزہ کے تقریباً 23 لاکھ لوگ بے گھر ہیں۔ غزہ جنگ کی وجہ سے 47 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں جبکہ مقامی لوگوں اور کارکنان کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 47 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان قربانیوں کے بعد اہل غزہ ٹرمپ کے پلان پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے، اس پر شبہ ہے۔ حماس کے ایک عہدیدار کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ ’غزہ سے نقل مکانی کی کوئی پیش کش قابل قبول نہیں، چاہے یہ پیش کش تعمیر نو کے نام ہی پر کیوں نہ کی جائے۔‘ کیا حماس کے نہ چاہتے ہوئے بھی حماس اہل غزہ کو مصراور اردن بھیجیں گے؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے اور اس کے جواب سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مشرق وسطیٰ کے آنے والے دن کیسے ہوں گے۔ ویسے ٹرمپ کے بیان نے مشرق وسطیٰ کے حالات تبدیل ہونے کا اندیشہ پیدا کر دیا ہے اور ایسا لگتا نہیںکہ اردن اور مصر ان کے پلان پر عمل کرنے کے لیے آسانی سے تیار ہو جائیں گے۔ اردن کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایمن الصفدی نے یہ بات کہی ہے کہ اردن قیام امن کے لیے مسئلۂ فلسطین کے دو ریاستی حل کو اہم سمجھتا ہے۔ مصر کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی واضح پیغام آنے کے بعد یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جائے گی کہ ٹرمپ اپنے منصوبوں میں کتنے کامیاب ہوں گے مگر وقت رہتے صدر امریکہ کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کہیں ان کا منصوبہ ان کے اصل اور پنہاں مقاصد کے حصول پر بھاری نہ پڑ جائے!

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS