ڈاکٹر ریحان اختر
گزشتہ دو تین ماہ سے ہندوستان میں چنائو کا ماحول بنا ہوا تھا ،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں الیکشن کمیشن کی جانب سے حالیہ لوک سبھا الیکشن امن و سکون کے ساتھ سات مراحل میں کرائے گئے جن کے نتائج چار جون کو جاری کئے گئے تھے۔ ہندوستانی پارلیمانی انتخابات کے اختتام کے بعد نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے لیے فیصلہ کن فتح کا انکشاف کیا جس کی بدولت ان کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی اس نتیجے نے حکمراں اتحاد کے طور پر این ڈی اے کی پوزیشن کو مضبوط کیا، جبکہ گانکریس کے زیر قیادت انڈیا الائنس بھی ایک مضبوط اور مستحکم اپوزیشن کے طور پر ابھری۔ نومنتخب ارکان پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی حلف برداری کے بعد عوام کی توجہ پارلیمانی اجلاس کی طرف مبذول ہوتی ہے جہاں عوامی مسائل پر اہم بحثیں مرکزی سطح پر ہوتی ہیں۔
پارلیمانی اجلاس کے دوران سیاسی میدان سے تعلق رکھنے والے ارکان مختلف مسائل اور اہم موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ ان میں اقتصادی پالیسیاں، صحت کی دیکھ بھال میں اصلاحات، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، زرعی مسائل،تعلیمی مسائل ، روزگار اور قومی سلامتی کے خدشات شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ اجلاس نو منتخب اراکین کو اپنے ووٹروںکے تحفظات کا اظہار کرنے، قانون سازی میں تبدیلیاں تجویز کرنے اور پارلیمانی مباحثوں اور کمیٹی کے اجلاسوں کے ذریعے حکومتی اقدامات کی جانچ پڑتال کے لیے ایک فورم فراہم کرتا ہے۔پارلیمانی اجلاس حکومت کے لیے اپنا ایجنڈا، پالیسیاں اور بجٹ مختص کرنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ تنقید کریں اور متبادل نقطہ نظر پیش کریں کہ کس طرح قوم کی ترقی اور بہبود کے لیے اہم معاملات پر متوازن گفتگو کو یقینی بنایا جائے۔ مجموعی طور پر انتخابات کے بعد کا پارلیمانی اجلاس ہندوستان کے جمہوری عمل کا ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے جہاں نو منتخب نمائندے اہم عوامی مسائل پر غور و فکر کرکے حکومت کے سامنے رکھتے ہیں۔
اس بار کے لوک سبھا الیکشن کے نتائج نے جہاں حکمران جماعت کے دعوے کو کمزور اور بی بنیاد ثابت کیا وہیں انڈیا الائنس اتحاد پر ہندوستانی عوام نے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا اور اس اتحاد کو ایک مضبوط حزب مخالف کی شکل میں پیش کیا اور ہندوستان جیسی بڑی جمہوریت کے لئے اپوزیشن کا مضبوط ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ کہ ہندوستانی پارلیمانی نظام میں ایک مضبوط اپوزیشن جمہوری اقدار کے تحفظ اور موثر حکمرانی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کا تنقیدی جائزہ لے کر اپوزیشن طاقت کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے اور احتساب کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ متنوع نقطہ نظر اور آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے جو حکمران پارٹی کے ایجنڈے سے میل نہیں کھا سکتے، اس طرح یہ یقینی بناتا ہے کہ قانون سازی کی بحث عوام کے متنوع مفادات اور خدشات کی عکاسی کرتی ہے۔ نیز ایک مضبوط اپوزیشن صحت مند جمہوری گفتگو کو فروغ دیتی ہے، شفافیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور پارلیمانی اجلاسوں میں تعمیری شرکت کے ذریعے قوانین اور پالیسیوں کی اصلاح میں اپنی رائے شراکت درج کراتی ہے۔ جمہوریت کے اصولوں کو برقرار رکھنے، حکمرانی میں توازن برقرار رکھنے اور ہندوستان میں جامع اور جوابدہ فیصلہ سازی کے عمل کو فروغ دینے کے لیے اس کی موجودگی ضروری ہے۔
حال میں ختم ہوئے انتخابات کے نتائج سے یہ بات تو صاف ہوگئی تھی کہ اپوزیشن کی مضبوطی سے حکمران جماعت کی راہ گزشتہ دس سالوں کی طرح آسان ہونے والی نہیں ہے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی جیسی امید تھی۔ صدر جمہوریہ ہند کے خطاب کے رد عمل پر اپنی بات رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں راہل گاندھی نے بطور اپوزیشن لیڈر نوے منٹ سے زیادہ اپنی پہلی تقریر کی جس پر ایوان میں کافی ہنگامہ بھی ہوا ،ہنگامہ آرائی کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے لے کر پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو تک سبھی نے شکایت کی۔ جس کے بعد اسپیکر اوم برلا نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے راہل گاندھی کی تقریر کے کئی حصوں کو ہٹا بھی دیا ہے۔ دراصل لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے بی جے پی اور مرکزی حکومت پر سخت حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بی جے پی لیڈروں پر لوگوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ راہل گاندھی کے اس حملے کی حکمراں جماعت نے سخت مخالفت کی تھی۔ راہل گاندھی کی تقریر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے دو بار کھڑے ہو کر مداخلت کی، نہ صرف یہ بلکہ مرکزی حکومت کے پانچ وزراء نے بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران ملک کے کئی اہم اور سنجیدہ مسائل پر بات کی لیکن انھوں نے سب سے زیادہ وقت بی جے پی، وزیر اعظم مودی اور ان کے پالیسیوں کی تنقید پر دیا۔انھوں نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ اس نے گزشتہ سالوں میں سماج کے کئی طبقات میں خوف پیدا کر دیا ہے اور نفرت کو بڑھاوا دیا۔
راہل گاندھی نے کہا کہ جو لوگ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں وہ چوبیس گھنٹے جھوٹ، فریب ،دھوکہ ہنسا اور تشدد کی بات کرتے ہیں جبکہ ہندو مذہب تو اہنسا کو فروغ اور ایک ہندو ستیہ اور اہنسا کا پجاری ہوتا۔جس پر حکمران جماعت کی طرف سے ہنگامہ کیا گیا اور کہا گیا کہ راہل نے پورے ہندو سماج کو ہنسا وادی کہا ہے جس پر جواب دیتے ہوئے راہل نے کہا کہ، نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔ نریندر مودی پورا ہندو سماج نہیں ہے۔ بی جے پی پورا ہندو سماج نہیں ہے۔ آر ایس ایس پورا ہندو سماج نہیںہے۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران شیو جی اور دیگر مذاہب سے متعلق پلے کارڈ دکھاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہر مذہب نفرت ، تشدد ، ہنسا کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور دنیا کے تمام مذاہب آپسی بھائی چارہ ، اتحاد ، محبت ، امن ، عدم تشدد اور اہنسا پر زور دیتے ہیں اور اس کی فروغ کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے اس درمیان اسلام سے متعلق دعا مانگنے کا ذکر کیا ، لوک سبھا میں عدم تشدد اور امن کی بات کرتے ہوئے حضرت محمد مصطفیؐ کا حوالہ دیتے ہوئے درود پڑھا اور کہا کہ دنیا کی تمام عظیم ہستیوں نے عدم تشدد اور خوف کو ختم کرنے کی بات کی اوربتایا کہ ڈرنا نہیں چاہیے۔اور قرآن کی آیت کا ترجمہ بڑھا کہ اس نے (اللہ) فرمایا کہ ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں، سنتا اور دیکھتا ہوں۔ انھوں نے مزید زور دیا کہ اسلام میں بھی کہا گیا ہے کہ ڈرنا نہیں۔ راہل نے ہندو مت اور اسلام کے بعد سکھ مت ، بدھ مت، جین مت اور عیسائیت کے مذاہب میں بھی بے خوفی کے پیغامات پڑھے۔
راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ برسوں میں بی جے پی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ بہت نا انصافی ہوئی اور ان کے ساتھ نا روا سلوک رکھا گیا ، ان پر ظلم کیا گیا ، ان کے حقوق سلب کئے گئے حالانکہ ہمارے ملک کی اقلیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے جو ہر وقت ملک سے محبت اور ترقی کی راہ پر اپنا بھر پور تعاون دیتی آرہی ہے تو ایسے میں اس حکومت کو ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے تھا لیکن یہ حکومت اس تعلق سے پوری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں کسان ، مزدور ، تعلیم، خاص کر نیٹ پیپر لیک اور دوسرے مقابلہ جاتی امتحانات میں دھاندلیوں پر بھی پر زور طریقے سے اپنی بات رکھی اور حکومت کو آئینہ دکھایا کہ کیسے یہ حکومت ہمارے نوجوانوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ اگنی ویر پر راہل نے دلائل کے ساتھ بات کی اور ان کو شہید کا درجہ دئے جانے ساتھ ہی معاوضہ کے متعلق بھی حکومت کو گھیرا جس پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو بیچ میں بولنا پڑا۔
راہل نے منی پور پر بھی بات کی کہ کیسے منی پور جل رہا ہے اور حکومت انجان بنی بیٹھی ہے، جس سے دوسری جماعتوں کے رہنمائوں کے خوب حوصلے بڑھے اور انہوں نے بی جے پی کو اس کی ہر ایک پالیسی پر آڑے ہاتھوں لے لیا، جن میں منی پور، نیٹ امتحان اور برادریوں میں نفاق سر فہرست رہے۔
گزشتہ دس سالوں میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے جب انڈین میڈیا اپوزیشن کی تقرریں دکھانے پر مجبور ہوا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر راہل گاندھی اور دوسرے رہنمائوں کی وائرل ویڈیوز سے طوفان کھڑا ہو رہا تھا اور ان کی تقریر امید سے زیادہ دیکھی جا رہی ہے جس پر مختلف تبصرے بھی کئے جارہے ہیں چنانچہ سینئر صحافی ونود شرما نے کہا کہ یہ راہل گاندھی اور اپوزیشن کے نقطہ نظر سے ایک بہترین تقریر تھی۔
کانگریس نے پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یہ بہت اچھی تقریر تھی۔ مودی جی کے کام کرنے کے انداز کے خلاف کسی نے پہلی بار ایسا کیا تو وہ راہل گاندھی ہیں۔ اس سے پہلے جس نے یہ کیا وہ اٹل بہاری واجپائی تھے۔صحافی سمیتا گپتا کہتی ہیں کہ راہل گاندھی کی تقریر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب اپوزیشن لوک سبھا میں خاموش نہیں رہے گی۔ راہل اب صرف فرنٹ فٹ پر کھیلیں گے۔ راہل نے جس طرح بی جے پی پر حملہ کیا اس سے وزیر اعظم کافی ناراض ہو گئے اور ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔ راہل گاندھی کو جواب دینے کے لیے تین بڑے لیڈر کھڑے ہو گئے۔
[email protected]
ہر مذہب کا پیغام ڈرو مت ، ڈراؤ مت: ڈاکٹر ریحان اختر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS