ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
اسلام نے نوع انسانی کی تربیت اور تزکیہ نفس کے لیے جو شفاف ہدایات بتائی ہیں، ان میں روزہ کا بنیادی کردار ہے۔ روزہ عبادت خداوندی اور رضائے الٰہی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی روحانی تربیت اور پاکیزہ اوصاف وتقدس کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کے اختتام پر نوع انسانی کو عید کے نام پر خوشی منانے کا موقع عنایت کیا ہے۔ یقینا یہ خالق کائنات کی جانب سے ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ عید الفطر جہاں نوع انسانی کے لیے مسرت و شادمانی لے کر آ تی ہے، وہیں اس میں یہ پیغام بھی پنہاں ہے کہ عید اور رمضان کے موقع پر سماج کے نادار افراد کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ در اصل یہ اسلام کی فطری تعلیمات اور مزاج و روح کا بنیادی حصہ ہے کہ مسلمان عید الاضحی اور عیدالفطر جیسی خوشیوں سے لطف اندوز تو ہوں، لیکن انہیں اپنے پڑوس، خاندان اور عزیز و اقارب پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو ناداری یا غربت و افلاس کی وجہ سے معاشرے کا کوئی بھی فرد عید جیسی پر کیف خوشیاں منانے سے محروم رہے۔ یہ ذمہ داری اہل ثروت اور صاحب نصاب پر عائد ہوتی ہے۔ یاد رکھئے جب معاشرے میں اجتماعی مفادات اور مجموعی خوشیاں آ تی ہیں تو اس سے نہ صرف معاشرے کی تہذیبی قدروں اور معاشرتی تقاضوں کو جلا ملتی ہے بلکہ اس سے ایک مضبوط خاندان اور مضبوط سماج کا بھی تصور ابھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے روزوں جیسی عبادت یا دیگر دینی امور کی انجام دہی کے موقع پر اجتماعیت اور ایثار و قربانی کی اہمیت بتا کر سماج سے غربت و افلاس اور تنگدستی و تنگ دامانی کو نابود کرنے کی پوری سعی کی ہے۔ اگر مسلم کمیونٹی صرف اسلام کے فلسفہ زکوٰۃ پر مکمل عمل پیرا ہوجائے تو پھر یقینی طور پر معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اسلام کے نظام زکوٰۃ و صدقات کو ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ کتنے خاندان و افراد ایسے ہیں جو شرعی اعتبار سے متمول ہوتے ہوئے بھی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو قطعی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس طرح کے دینی امورکی انجام دہی سے رضائے خداوندی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت اور فلاح وبہبود کا جذبہ بھی موجزن ہوتا ہے۔ سماج میں باہم مواسات و مواخات اور یکجائیت و مرکزیت پیدا ہوتی ہے۔
لہٰذا عید کے موقع پر ہمیں انسانی حقوق اور عوامی ضروریات نیز ان کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عید کا مطلب عام آ دمی صرف یہ سمجھتا ہے کہ نیا لباس زیب تن کر لیا جائے اور سوئیاں یادیگر لذیذ پکوان کھالیے جائیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ عید جہاں انسانی حقوق اور عوامی فلاح کے لیے مسلمانوں کو ابھارتی ہے، وہیں یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ عید کے موقع پر انسانی رشتوں کو استحکام و عظمت ملتی ہے۔ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک ماہ روزے رکھنے سے تربیت سازی ، کردار سازی اور افراد سازی کا بھی بھرپور موقع میسر آتا ہے۔ لہٰذا عید کا مطلب صرف سوئیاں کھانا یا جدید لباس زیب تن کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے روحانی اور عرفانی تقاضوں کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا، نیز عید کی معاشرتی و سماجی قدروں کو مدنظر رکھتے ہوئے سماج میں یکجائیت ومرکزیت کے پیغام کو بھی عام کرنا ہوگا۔ سماج میں پھیلی بد عنوانی یا کسی بھی طرح کی نفرت کو ختم کرنے کا عید بہترین ذریعہ ہے۔ اس موقع پر جہاں ہمیں عید کی خوشیاں مل کر منانی ہیں، وہیں اجتماعیت کے ساتھ محبت و مودت ، اتحاد و اتفاق اور یگانگت و ہمدردی کا بھی پیغام دینا ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آ ج نفرت جس طرح ملک میں دو فرقوں یا دو مذاہب کے متبعین کے مابین پھیلائی جارہی ہے، اسی طرح باہم مسلمانوں میں بھی بہت زیادہ کشمکش اور پرخاش ہے لہٰذا مسلم کمیونٹی میں جو مغایرت ومنافرت ہے عید کے موقع پر اس کو بھی نابود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت کورونا نامی مہاماری نے پوری دنیا کی معیشت و تجارت اور اقتصادیات کو بری طرح متاثر کرڈالا ہے، اس کے علاوہ کورونا کی دوسری لہر نے نہ جانے کیسے کیسے افراد و اشخاص کو موت کی آ غوش میں سلادیا ہے۔ کتنے بچوں کو یتیم اور ان گنت عورتوں کو بیوہ کردیا ہے، اس لیے اس عید میں دوسروں اور ناداروں کا خیال رکھنا یوں بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ عید جہاں خوشیاں لے کر آئی ہے، وہیں ہمارے پاس پڑوس اور اردگرد میں کورونا مہاماری نے غموں کے پہاڑ بھی توڑ ڈالے ہیں۔ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عید کی خوشیاں منائیں۔ اسی کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رہے کہ اس وقت ملک کی بیشتر ریاستوں میں کورونا کرفیو چل رہا ہے اور ریاستوں نے رہنما خطوط بھی جاری کردیے ہیں۔ لہٰذا عید کے موقع پر حکومتوں کی طرف سے جاری قوانین و ہدایات کی مکمل پابندی کرنا ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری معمولی غفلت سے ہم کسی ناگہانی جرم کے شکار ہوجائیں ۔ کیونکہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ بہت حدتک حکومت کی ناکامی کو اُجاگر کررہے ہیں، چنانچہ میڈیا اور بر سر اقتدار افراد کا ایک طبقہ اس فراق میں ہے کہ کسی بھی طرح سے مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے کا موقع میسر آجائے۔
عید کیا ہے اور اس کا پیغام کیا ہے، اس کو نہ صرف سمجھنا ہے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم عید کی تمام روحانی قدروں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں۔ عید عام آ دمی کے لیے تو صرف سوئیاں کھانے کا ایک تہوار ہے مگر ارباب عقل و شعور اور صاحب تدبر وتفکر کے لیے اس کے اندر بہت سی مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس کے اندر انسانی رشتوں کا تقدس ہے تو وہیں اسلام کی اہم تعلیم امداد واستعانت کا نظام بھی موجود ہے۔
عید کیا ہے اور اس کا پیغام کیا ہے، اس کو نہ صرف سمجھنا ہے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم عید کی تمام روحانی قدروں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں۔ عید عام آ دمی کے لیے تو صرف سوئیاں کھانے کا ایک تہوار ہے مگر ارباب عقل و شعور اور صاحب تدبر وتفکر کے لیے اس کے اندر بہت سی مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس کے اندر انسانی رشتوں کا تقدس ہے تو وہیں اسلام کی اہم تعلیم امداد واستعانت کا نظام بھی موجود ہے۔ امن و سلامتی ، حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے لیے بھی عید سعید اپنے اندر بہت ساری روایات رکھتی ہے۔ اب ہم کو عید سعید کے پر نور موقع پر جہاں خیرسگالی کے مقدس جذبے کو پروان چڑھانا ہے وہیں ملک وملت کی بھلائی اور ہم آ ہنگی کے تئیں بھی پوری طرح بیدار رہنا ہے۔ عید سعید کی رونقوں سے پورے طور پر ہم اسی وقت لطف اندوز اور بہرہ مند ہوسکتے ہیں جب کہ ہم ان تعلیمات وروایات پر عمل کریں جن سے معاشرے میں امن و یکجہتی کی فضا ہموار ہو جائے۔
[email protected]