عطارد ہوکر آخری سانسیں لے رہا ہے کشورساگر

0

پنکج چترویدی

مدھیہ پردیش میں ان دنوں ریاستی حکومت کی ’’جل گنگا تحفظ مہم‘‘ چل رہی ہے۔ اس کے تحت30مارچ2025سے 30جون2025تک ریاست میں پانی کے ذرائع کا تحفظ اور بحال کرنا ہے جس میں ندیاں، تالاب، کنویں اور باولیاں شامل ہیں۔ لیکن پیاس اور ہجرت کے لیے بدنام بندیل کھنڈ کے چھتر پور شہر میں جیسے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں این جی ٹی کے حکم کے باوجود شہر کے سب سے خوبصورت کشور ساگر سے تجاوزات تو ہٹائے نہیں جارہے ہیں، اس کے برعکس جب کچھ صحافی اس بارے میں لکھتے ہیں تو ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دے کر ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ مہاراجہ چھترسال، جو قلم اور تلوار دونوں کے دھنی تھے، نے1707 میں جب چھتر پور شہر قائم کیا تھا تو یہ وینس جیسا ہوا کرتا تھا۔ چہارجانب گھنے جنگلوں والی پہاڑیاں اور بارش کے موسم میں وہاں سے بہہ کر آنے والے پانی کے ہر قطرے کو محفوظ کرنے والے تالاب، تالابوں کے درمیان سڑک اور اس کے اطراف میں بستیاں۔ 1908 میں ہی اس شہر کومیونسپلٹی کا درجہ مل گیا تھا۔ آس پاس کے درجن بھر اضلاع انتہائی پسماندہ تھے،سے کاروبار، خریداری، محفوظ رہائش وغیرہ کی وجہ سے یہاں لوگ یہاں آکر آباد ہونے لگے۔آزادی ملنے کے بعد تو یہاں کا باشندہ ہونا باعث فخر بن گیا۔ لیکن اس شہری توسیع کے درمیان آہستہ آہستہ اس جگہ کی خوبصورتی، فطرت اور ماحول متاثرہونے لگا۔ ابھی اسّی کی دہائی تک شہر میں کبھی پانی کی قلت نہیں تھی اور آج نہ صرف نلکے خالی ہیں بلکہ کنویں اور دیگر وسائل بھی ساتھ چھوڑچکے ہیں۔ تاہم اب وہاں کے لوگ بیدار ہوگئے ہیں تالابوں کو بچانے کے لیے۔

چھتر پور ہی میں جس تالاب کی لہریں کبھی آج کے چھترسال چوراہہ سے محل کے پچھلے حصے تک اور بسوریانہ سے آکاشوانی تک اٹھتی تھیں، وہاں اب گندگی، کنکریٹ کے جنگل اور تعفن ہے۔ یوں تو نیشنل گرین اتھارٹی یا نیشنل گرین ٹربیونل نے یہاں سے ناجائز تجاوزات ہٹانے کے احکامات دیے ہیں لیکن انتظامیہ میں بیٹھے لوگ کاغذی گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس عمل کو روکے ہوئے ہیں۔ جبکہ پورے سال پانی کے لیے پریشان چھتر پور شہرکو اپنے سب سے بڑے اور نئے ’کشور ساگر‘کی ابتر حالت کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑرہا ہے۔

بندیل کھنڈ کا مزاج ہے کہ ہر پانچ سال میں دو بار کم بارش ہوگی ہی، اس کے باوجود اسّی کی دہائی میں چھتر پور شہر میں پانی کا بحران نہیں تھا۔ اسی دوران یہاں باہر سے آنے والوں کا سیلاب آگیا۔ جب ان کی آباد کاری اور کاروبار کے لیے زمین کی قلت ہوئی تو شہر کے ایک درجن تالابوں کے کناروں پر لوگوں نے قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ان دنوں لوگوں کا خیال تھا کہ پانی نلکوں یا ہینڈ پمپ سے فراہم کیا جاتا ہے۔ جب لوگوں کو سمجھ آیا کہ نل یا زمینی پانی کا وجود تو انہی تالابوں پر منحصر ہے جنہیں وہ ہڑپ گئے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ کشور ساگر کانپور سے ساگر جانے والی شاہراہ پر ہے، اس کے آس پاس نیا چھتر پور آباد ہونا شروع ہوا تھا، اس لیے کشور ساگر میں گھر، دکانیں، بازار، مال، بینکویٹ، سب کچھ بنا دیے گئے ہیں۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح سے زمینوں پر قبضہ کرنے والوں میں زیادہ تر بااثر لوگ ہی ہیں۔ ابھی کچھ سالوں میں بارش کے دوران وہاں بنی کالونی میں گھروں میں پانی بھرنے لگا تو لوگ انتظامیہ کو کوسنے لگے۔

کشور ساگر کے سیٹلمنٹ ریکارڈ کے مطابق،1939-40 سے1951-52تک، خسرہ نمبر 3087 پر اس کا رقبہ8.20ایکڑ تھا۔ سال1952-53میں اس کا ایک چوتھائی حصہ کچھ لوگوں نے اپنے نام پر رجسٹر کروالیا۔ آج معلوم ہورہا ہے کہ اس کی کوئی منظوری ہی نہیں تھی، وہ تو محض ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے تالاب کو کسی کی ملکیت بنا دیا گیا تھا۔ اچانک سال2011 میں اس وقت کے کلکٹر نے سپرنٹنڈنٹ آف لینڈ ریکارڈ، ایس ڈی ایم اور نائب تحصیلدار کو تالاب کا معائنہ کرنے اور تجاوزات ہٹانے کے لیے ایک مکتوب جاری کیا۔ تینوں افسران نے چھ صفحات کی تفصیلی رپورٹ تیار کرکے کلکٹر کو بھیج دی۔ اس پوری رپورٹ میں تالاب کے اصل رقبہ اور فلنگ ایریا کو نشان زد کرتے ہوئے ایک نقشہ بھی لگایا گیا۔ تب معلوم ہوا کہ لوگ تالاب میں گھس گئے ہیں نہ کے پانی ان کے گھر میں۔ معاملہ پھر بھی سرد خانے میں چلا گیا تو یہ معاملہ این جی ٹی کی بھوپال بنچ پہنچا۔ جہاں او کے نمبر22/2013 میں مورخہ7اگست2014کو این جی ٹی نے کشور ساگر تالاب کے اصل رقبہ، فلنگ ایریا اور10میٹر گرین زون کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ چھتر پور کی انتظامیہ نے اس حکم کو دبا دیا۔ تجاوزات تو ہٹے نہیں بلکہ آہستہ آہستہ تالاب کے فلنگ ایریا میں کالونی ڈیولپ ہوگئی۔ جب این جی ٹی کے احکامات کی تعمیل نہیں ہوئی تو سماج کے لوگ دوبارہ این جی ٹی کے پاس گئے۔

درخواست نمبر04/21(سی زیڈ) مورخہ 20ستمبر2021کو سماعت کے بعد، ٹریبونل نے قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے لیے کیس کو ڈسٹرکٹ کورٹ، چھتر پور منتقل کر دیا۔ تب سے یہ مقدمہ چھتر پور کی عدالت میں زیر التوا ہے، جس میں دوسرے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج مسٹر ہمانشو شرما نے8اکتوبر2023کو حکم دیا تھا کہ این جی ٹی کے حکم کے مطابق کشور ساگر تالاب سے تجاوزات ہٹائے جائیں۔ یہ حکم بھی بے اثر ثابت ہو رہا ہے اور اس کی توہین کی جارہی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران تو عدالت نے کلکٹر سندیپ جی آر کے ذاتی نام سے ایک خط جاری کرکے ان سے رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔ ایک بار پھر ایگزیکٹو حاوی نظر آیا اور کلکٹر نے ڈسٹرکٹ جج کے خطوط کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔

حال ہی میں جب ریاستی حکومت کے منصوبے کی تشہیر کی گئی تو سوسائٹی نے ایک بار پھر این جی ٹی کے حکم کی یاد دلائی۔ پہلے تو انتظامیہ نے صحافی کے خلاف ہی مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی اور پھر کچھ لوگوں کو تجاوزات ہٹانے کا نوٹس جاری کردیا۔

معاملہ صرف کشور ساگر کا نہیں ہے، مغربی اترپردیش کی ہنڈن ندی ہو یا پنجاب کا بڈّا نالہ یا بلیا کا سرہا تال یا نینی تال کی جھیلیں-این جی ٹی تو احکام جاری کردیتا ہے لیکن عمل درآمد کرنے والی ایجنسی یعنی ضلع انتظامیہ ایسی کارروائی نہیں کرپاتا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ بات ہمارے آئین کے بنیادی فرائض میں درج ہے، سپریم کورٹ کئی معاملات میں وقتاً فوقتاً کہتا رہا ہے، وزارت ماحولیات کے رہنما خطوط بھی ہیں اور نیشنل گرین ٹریبونل کا حکم بھی کہ کسی بھی نالے، ندی یا تالاب، نہر، جنگلاتی علاقے جو ماحول کا توازن برقرار رکھنے کا کام کرتے ہیں، وہاں کسی بھی قسم کی پکی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ یہی نہیں، ایسے آبی ذخائر کے کیچمنٹ ایریا کے ارد گرد چالیس فٹ کے دائرے میں کسی بھی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔ کشور ساگر میں تو تعمیر کرکے اسے ڈیڑھ ایکڑ تک محدود کردیا گیا۔

ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، نہ جانے کتنے کشور ساگر وقت سے پہلے مرتے نظر آرہے ہوں گے۔ درحقیقت یہ تالاب اور ندیاں نہیں ختم ہورہی ہیں، ہم اپنے آنے والے دنوں کی پیاس کو بڑھا رہے ہیں، پانی کے بحران کو بڑھا رہے ہیں اور زمین کا درجہ حرارت بڑھا رہے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS