خاورحسن
سچ بولنے والے لوگ اکثر حکمرانوں کو اچھے نہیں لگتے، سچ دکھانے والے میڈیا کے لوگ تو بالکل اچھے نہیں لگتے، وہ سچ کو دباکے رکھتے ہیں، جھوٹ کی اوٹ میں چھپاکے رکھتے ہیں اور میڈیا والے انہیں دکھا دیتے ہیں۔ شی جن پنگ کی چینی حکومت کو بھی وہ میڈیا والے پسند نہیں جو چین کی ترقی کے پیچھے چھپی تاریکیوں کو دکھاتے ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ چین کی چمک بیجنگ میں ضرور نظر آتی ہے مگر اس چمک نے سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں سے امیدوں کا اجالا چھین لیا ہے، انہیں مایوسیوں کے اندھیرے میں غرق کر دیا ہے۔ ابتدا میں سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خبریں آتی تھیں تو چینی حکومت ان سے بے نیازی ظاہر کرتی تھی مگر دھیرے دھیرے وہ عالمی میڈیا کے رول کو سمجھ گئی۔ میڈیا والوں کے خلاف وہ کھل کر کارروائی کرنے لگی۔ اس کی مذموم کارروائی کی حالیہ مثال ’بی بی سی‘کے بیجنگ کورِس پانڈنٹ جون سدورتھ ہیں۔ انہیں چین چھوڑ کر تائیوان جانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ جون سدورتھ نے لکھا ہے کہ ’حالیہ چند برسوں میں جس طرح صحافیوں کو چین سے بے دخل کیا گیا اور ان سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے، میں اس سلسلے کی ایک تازہ مثال ہوں۔ یہ اس بڑی جنگ کا ایک حصہ ہے جس میں چین نئے خیالات اور اطلاعات کے خلاف دنیا بھر میں خود کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔‘
دوسری طرف امریکہ ہے جہاں جارج فلوئیڈ جیسا کوئی شخص نسلی تعصب کا شکار ہو جاتا ہے تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، عالمی میڈیا کے لوگ نسلی تعصب اور مظاہروں کے خلاف ہونے والے احتجاج کو کور کرتے ہیں اور یہ بات امریکہ کے صدر کے لیے باعث شرمندگی ہوتی ہے، اس لیے امریکہ سے لاکھ شکایتیں ہوں، اس کی مذموم پالیسیوں پر بار بار تنقید کی جائے مگر یہ کہنے میں تامل نہیں کہ امریکہ کے مقابلے چین کا ابھرنا، اقتصادی طاقت بننا دنیا کے لیے ٹھیک نہیں۔
چین کی طاقت میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن وہ سپرپاور نہیں ہے اور اگر سپرپاور ہوتا تب بھی انسان دوست لوگ اس کے مظالم کے خلاف کچھ کر نہیں پاتے تو بولتے ضرور، کیونکہ ملک سرحدوں میں بانٹے جا سکتے ہیں، انسانیت نہیں۔ انسانوں کے لیے خانہ بنانا ممکن ہے، مختلف خانوں میں انسانوں کا مقید ہو جانا بھی ممکن ہے مگر انسانیت کا کوئی خانہ نہیں، کوئی مذہب اور خطہ نہیں، انسانیت کسی خاص آئیڈیالوجی سے وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود چینی سربراہ شی جن پنگ نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اویغوروں کا ایشو چین کو سپرپاور بنانے کے ان کے منصوبوں پر بھاری پڑے گا۔ میڈیا پر قدغن لگاکر وہ اس ایشو کو دبا نہیں پائیں گے، سوشل میڈیا کے اس دور میں جس کے ہاتھ میں موبائل ہے اور اس میں انٹرنیٹ ہے ، وہ خود رپورٹر ہے۔ خبریں ایک ہی صورت میں دبائی جا سکتی ہیں کہ کوئی ملک پتھر کے دور میںچلا جائے اور شی اس دور میں چین کو لے جانا نہیں چاہتے تو پھر ان کی حکومت کو میڈیا والوں پر قدغن لگانے کے بجائے انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے، اپنے ملک کے لوگوں کو جائز حقوق دینے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، ترقی میں اضافے کے ساتھ توسیع پسندی کا دائرہ نہیں بڑھانا چاہیے، کیونکہ پچھلے 110 برس میں ہونے والی دو عالمی جنگوں اور ان کے علاوہ مختلف جنگوں نے دنیا کے بیشتر ملکوں کو یہ بتا دیا ہے کہ باقی وہی ملک رہتا ہے جو بڑی خاموشی سے گزرتے وقت کے ساتھ اقتصادی قوت اور دفاعی طاقت میں اضافہ کرتا رہتا ہے مگر دنیا کو ’قرض جال‘ میں نہیں الجھاتا، اپنی طاقت سے کسی کو ڈراتا نہیں ہے۔
جرمنی، اٹلی اور جاپان کے پاس طاقت کم نہیں تھی مگر ان ملکوں میں اور امریکہ میں بنیادی فرق یہ تھا کہ امریکہ نے جنگ میں خواہ مخواہ الجھنے سے گریز کیا، جاپان ایسا نہیں کر سکا۔ امریکہ کے خلاف ایک بار طاقت دکھانا اسے کتنا بھاری پڑا، یہ عبرتناک مثال تحریک لینے کے لیے کافی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ شی جن پنگ نے تاریخ کو پس پشت ڈال دیا ہے، وہ ایک نئی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں، وہ وقت کے نئے سکندر بننا چاہتے ہیں، اس لیے انہیں نہ اپنے ملک کے لوگوں کے جائز حقوق کا خیال ہے اور نہ عالمی برادری کی ناراضگی کا خیال ہے۔ ایک طرف چین ہے جہاں حکومتی سطح پر اویغوروں کے خلاف نئے نئے ستم آزمائے جاتے ہیں اور اس پر بولنے، کچھ لکھنے کی اجازت کسی کو نہیں، اگر کوئی اویغوروں کی کسمپرسی دکھانا چاہتا ہے تو شی جن پنگ کی حکومت اسے چین بدر کر دیتی ہے، دوسری طرف امریکہ ہے جہاں جارج فلوئیڈ جیسا کوئی شخص نسلی تعصب کا شکار ہو جاتا ہے تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، عالمی میڈیا کے لوگ نسلی تعصب اور مظاہروں کے خلاف ہونے والے احتجاج کو کور کرتے ہیں اور یہ بات امریکہ کے صدر کے لیے باعث شرمندگی ہوتی ہے، اس لیے امریکہ سے لاکھ شکایتیں ہوں، اس کی مذموم پالیسیوں پر بار بار تنقید کی جائے مگر یہ کہنے میں تامل نہیں کہ امریکہ کے مقابلے چین کا ابھرنا، اقتصادی طاقت بننا دنیا کے لیے ٹھیک نہیں۔
جون سدورتھ نے لکھا ہے کہ ’ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی ایک تقریر میں چین پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو تسلیم کرنے سے متعلق زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اکنامک فریڈم (اقتصادی آزادی) سے لبرٹی (آزادی) کی عادت ڈلتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ لبرٹی کی یہ عادت جمہوریت سے امید وابستہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔‘ جون سدورتھ نے آگے لکھا ہے کہ ’جب میں پہلی بار 2012 میں چین کام کرنے کی غرض سے آیا تو اس طرح کے مفروضے اور تجزیے سننے کو ملے تھے کہ جیسے جیسے چین امیر ہوتا جائے گا تو یہاں آزادیاں بڑھتی جائیں گی۔‘ لیکن ’میرے اس سال کے ساتھ یہ محض ایک اتفاق بھی جڑا ہوا ہے کہ اس برس چین کے موجودہ صدر شی چن پنگ کو کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری کا ایک بہت مضبوط عہدہ مل گیا، جس کے بعد ملک کے منظر نامے میں کئی تبدیلیاں ظہور پذیر ہونی تھیں جن کی پیش گوئی اس وقت نہیں کی جاسکتی تھی۔‘ مگر شی کے مزاج، ان کے انداز کار کے مدنظر چین کی پالیسیوں، اس کے متوقع منصوبوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہوتی تو حالات کچھ اور ہوتے۔
2012 میں امریکہ کی اقتصادی طاقت 16.2 ٹریلین ڈالر پر مشتمل تھی تو چین کی اقتصادیات 8.28 ٹریلین ڈالر پر مشتمل تھی یعنی امریکہ کے مقابلے چین کی اقتصادیات نصف تھی۔ جنگوں میں امریکہ کو الجھانے کے بجائے ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح جارج ڈبلیو بش نے اگر چین کے خلاف واضح پالیسی اختیار کی ہوتی، چین کے خلاف ٹریڈ وار چھیڑی ہوتی تو آج امریکہ کی اقتصادیات 20.93 ٹریلین ڈالراور چین کی اقتصادیات 15.42 ٹریلین ڈالر نہیں ہوتی، دونوں ملکوں کی اقتصادیات میں اس سے زیادہ فرق ہوتا۔ جون سدورتھ نے لکھا ہے کہ ’عالمی تجارت کے طریقۂ کار میں تبدیلی نے بھی چین کو بہت بدلا ہے، تاہم جمہوریت سے جو امیدیں وابستہ کی جا سکتی تھیں، وہ محض امیدیں ہی رہیں اور عملاً نظام مزید جکڑ بندیوں کی نذر ہو گیا۔ صدر شی نے پہلے سے ہی چین کے قدامت پسند نظام کو ہر شعبے پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘ جون سدورتھ کے مطابق، ’اب میڈیا کا میدان ہی ایسا رہ گیا تھا جو فیصلہ کن میدان جنگ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔۔۔۔ اور جیسا کہ بی بی سی کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے جو بھی غیر ملکی صحافی سنکیانگ کی صورتحال پر سچ سامنے لے کر آتا ہے، چین کے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق کوششوں پر سوالات اٹھاتا ہے اور اس وائرس کی ابتدا یا پھر وہ ہانگ کانگ میں اس کے مخالفین کی آواز کو سامنے لاتا ہے تو پھر وہ حکومت کی نظروں میں آ جاتا ہے اور اس کی مشکلات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔‘ یہ اضافہ اس حد تک ہوتا ہے کہ جان بچاکر بھاگنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جون سدورتھ نے یہ بتا دیا ہے کہ ان کے ساتھ چین میں کیا سلوک کیا گیا اور ان کے جیسے صحافیوں کے ساتھ چین میں کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ بات سمجھنییا سمجھانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ چینی حکومت اویغور مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوگی۔ شی حکومت اگر اویغوروں پر مظالم نہیں ڈھاتی، کورونا وائرس کے حوالے سے حقائق اگر وہ دنیا کو بتا دیتی تو پھر غیر ملکی صحافیوں پر قدغن لگانے کی اسے ضرورت پیش نہیں آتی، وہ ان سے ڈرتی نہیں، انہیں چین چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتی۔ چین کی یہ صورت حال واقعی تشویش ناک ہے، اس پر عالمی برادری کو توجہ دینی چاہیے۔
[email protected]