محمد حنیف خان
سرسید کے خوابوں کی تعبیر، ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کی ضامن اور ان کی امیدوں کا مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سربراہی اب پروفیسر نعیمہ خاتون کے کندھوں پر ہے۔یونیورسٹی کی سوسالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی خاتون کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس سے قبل نواب سلطان جہاں بیگم والیہ بھوپال یونیورسٹی کی پہلی چانسلر(دسمبر 1920تامئی 1930)بنائی گئی تھیں۔پروفیسر نعیمہ خاتون کی شبیہ ایک زیرک،نڈر اور بے باک ایڈمنسٹریٹر کی ہے جنہوں نے وائس چانسلر شپ سے قبل 2014سے اب تک ویمنس کالج کی پرنسپل کے طور پر کام کیا۔یوں تو ویمنس کالج میں تین ہزار سے زائد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں مگر وہ یونیورسٹی کا صرف ایک حصہ ہے، لیکن چونکہ یہاں میڈیکل وطب یونانی کو چھوڑ کر یونیورسٹی کے سبھی شعبے ہیں اس لیے اگر اسے “منی یونیورسٹی” سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا،یہاں انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی سے یونیورسٹی کے ذمہ داران (ای سی ممبران)کو متاثر کیا جس کی وجہ سے ان کا انتخاب اس اہم عہدے اور ذمہ داری کے لیے کیا گیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ صرف ایک عہدہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی و ملی امیدوں کا وہ تاج ہے جس کی جانب قوم کی نگاہیں ہمہ وقت لگی رہتی ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قومی سطح کی دانش گاہ ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری اس پر رہی ہے،جس نے اپنے روز قیام سے اب تک اس فریضہ کو بڑی تندہی کے ساتھ ادا کیا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کی جو بھی روشنی دکھائی دیتی ہے اس میں نصف سے زیادہ اسی ادارے کی مرہون منت ہے۔پورے ملک میں خواتین کی تعلیم کاجو چراغ روشن ہے اس کویہیں سے روشنی ملی ہے۔اس کے باوجود آج بھی معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس روشنی سے محروم ہے۔جس دانش گاہ کو ایک خاتون سربراہ ملی ہے یہ وہی ادارہ ہے جب 1896میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے ساتھ فیمیل ایجوکیشن سیکشن کے نام سے تعلیم نسواں کا شعبہ قائم ہوااور 1902تک اس کا ایک بھی جلسہ نہ ہوسکا تو شیخ عبد اللہ نے خود کو اس شعبے کا سیکریٹری مقرر کرایا۔1903میں بمبئی میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کاجلسہ ہوا جس میں پہلی بار پردے کے پیچھے بیٹھ کر عورتوں کوکانفرنس کے جلسوں کی تقریریں سننے کاموقع دیا گیا اور1906میں رسل گنج میں کرائے کے مکان میں لڑکیوں کا اسکول قائم کیا گیا تو شیخ عبداللہ کوایک استانی کے لیے دہلی اور لکھنؤ کی خاک چھاننی پڑی مگر کامیابی نہ مل سکی۔اسی ثمر آوراسکول کی پروردہ پروفیسر نعیمہ خاتون آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر ہیں۔شیخ عبد اللہ کے قائم کردہ اسکول کے ارتقائی سفر اور اس کے نتائج پر اگر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہندوستانی خواتین کی ترقی میں ایک سنگ میل قائم کیا ہے۔
یوں تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے عمومی طور پرہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے مگر خصوصی طور پر مسلم خواتین کی سطح زندگی کو نہ صرف بلند کیا ہے بلکہ ان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ہندوستان کی تین سینٹرل یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر خواتین ہیں جن میں سے دو خواتین (پروفیسر نجمہ اختر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پروفیسر نعیمہ خاتون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور ان کو اونچائیوں تک پہنچانے میں اس ادارے کا کتنا اہم کردار ہے۔ موجودہ معاشرے کے پدر سری نظام میں کسی خاتون کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے ادارے کاوائس چانسلر بننا ایک واقعہ ہے،جو یونیورسٹی کے قیام کے سو سال بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔چونکہ یونیورسٹی تازہ فکری جھونکوں کی کھڑکی ہے جہاں سے معاشرے میں نئی فکر کے تازہ جھونکے آتے ہیں اس لیے یہاں کے لیے شاید یہ اہم بات نہ ہو لیکن اس پورے معاشرے کے لیے یہ بہت اہم بات ہے۔جو ادارے سے باہر موضوع گفتگوبھی ہے۔مگر چونکہ یہاں کے ارباب حل و عقد گھٹی ہوئی فکر کے حامل نہیں ہیں،انہوں نے ایک خاتون کی صلاحیتوں کو دیکھا،پرکھا اور اس پر اعتماد کیا جس کے بعد انہیں پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے عصری تعلیمی نظام کی ذمہ داری سونپی ہے۔جس طرح سے پروفیسر نعیمہ خاتون نے اپنی سابقہ ذمہ داریوں کو فریضہ تصور کرتے ہوئے پوری تندہی سے ادا کیا ہے امید ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو بھی بحسن و خوبی انجام تک پہنچائیں گی۔
قوم، خصوصاً طلبا و طلبات اور دیگر عملہ کی ان سے وابستہ امیدیں اور خواب ان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں۔جن کی خوش کن تعبیر اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک دو سطحوں پر غور و خوض کے بعد عمل نہ کیا جائے۔پہلی بات تو یہ کہ ادارے کے داخلی نظام کومزید مستحکم کیا جائے،کہیں بھی ’’لوپ ہول‘‘نہ چھوڑے جائیں،جس کی جانب وائس چانسلر نے اپنی پہلی میٹنگ میں اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں حد درجہ سنجیدہ ہیں۔کورونا وبا کے بعد یہ پہلی بار ہو رہا ہے جب تعطیلات کلاں کا نظام وقت سے نافذ ہو رہا ہے۔ سلسلے وار تعطیلات کے ذریعہ یونیورسٹی کے نظام کو درست کرنے کی جانب انہوں نے مضبوط قدم اٹھایا ہے۔اس ایک قدم کے ذریعہ وہ پورے نظام پر اثر انداز ہوں گی۔امید ہے کہ اس فیصلے کے اثرات تعطیلات کلاں کے بعد واضح طور پر نظر آئیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کادا خلی نظام صرف داخلی نہیں ہے بلکہ یہ بیرون سے بھی وابستہ ہے جسے ذہن میں رکھ کر فیصلے کیے جائیں. یہاں وقوع پذیر ہونے والے ہر واقعہ کے پورے معاشرے پر اثرات مرتسم ہوتے ہیں۔ جو اس ادارے کو دوسرے تعلیمی اداروں سے مختلف کرتے ہیں۔وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کاتعلق اگرچہ اڑیسہ سے ہے جہاں مسلم آبادی کم ہے، مگران کی تعلیم اسی ادارے میں ہوئی،1977میں یہاں ہائی اسکول کے بعد آگئی تھیں،شعبہ نفسیات سے 1989میں پی اچ ڈی کی مگر اس سے ایک برس قبل 1988میں وہ اسی شعبے میں لیکچرر مقرر ہوگئی تھیں،دوبرس کے لیے وہ نیشنل یونیوروسٹی آف روانڈا بھی گئیں،2006میں پروفیسر ہوئیں اور2013میں اسی شعبے کی چیئر پرسن ہوئیں، پھر 2014سے ویمنس کالج کی پرنسپل رہیں،2015سے 2017تک یونویرسٹی کی’’اپیل کمیٹی برائے جنسی تشدد‘‘کی چیئرپرسن کے عہدے پر ہیں۔اقامتی ہالوں کی پرووسٹ (منتظمہ) بھی رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ یہاں کے مزاج اور اس مزاج سے وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور ان کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔اس لیے امید ہے کہ وہ قومی و ملی نفسیات پر خصوصی ارتکاز رکھیں گی۔
وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون ایک ایسی ایڈمنسٹریٹر ہیں جن کو معلوم ہے کہ اپنے ماتحتوں سے کام کیسے لیا جاسکتا ہے۔ چونکہ وہ نفسیات کی استاد ہیں اس لیے وہ ماتحتوں کی نفسیات سے بھی واقف ہیں۔ایک باردوران گفتگو انہوں نے کہا تھا کہ ضابطے کی خلاف ورزی کی اجازت بڑی بات ہے،ہمیں کسی کوکسی طرح کی بدنظمی کاموقع ہی نہیں دینا ہے کیونکہ انسانی نفسیات ہے کہ اگر کسی کو ایک بار موقع دے دیا گیا تو دوسرے دن وہ لائن کے اْس پار کھڑا نظر آئے گا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے کام کرنے کا کیا طریقہ ہے۔
ویمنس کالج کے سینئر پروفیسر اور موجودہ پرنسپل پروفیسر مسعود انور علوی کہتے ہیں پروفیسر نعیمہ خاتون نہایت شریف خاتون ہیں،ان میں انتظامی امور کی صلاحیت ہے اور طویل تجربہ رکھتی ہیں. وہ ذمہ دار بھی ہیں اور مخلص بھی، یہ وہ اوصاف ہیں جو ایک ایڈمنسٹریٹر میں ہونا ضروری ہیں تبھی وہ ادارے کو آگے لے جاسکتاہے، اس لیے امید ہے کہ وہ بہتر طور سے یونیورسٹی چلائیں گی۔
شعبہ انگریزی ویمنس کالج میں پروفیسر منیرہ ٹی کہتی ہیں کہ میں نے وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ان کی کچھ اہم خوبیاں ہیں،ان میں صلاحیت پہچاننے کا ملکہ ہے، اس لیے ذمہ داریوں کی تقسیم میں غلطی کا امکان نہیں رہتا، وہ ہمیشہ کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، اور ٹیم ورک میں یقین رکھتی ہیں، خود نمائی سے دور رہتی ہیں اسی لیے ہر ایک کو موقع دیتی ہیں، 2014سے وہ ویمنس کالج کی پرنسپل رہی ہیں جس طرح سے انہوں نے کام کیا ہے اس سے ثابت کیاہے کہ وہ ایک اچھی ٹیم لیڈر زیرک منتظم ہیں. وہ کہتی ہیںکہ وائس چانسلر بننے سے خواتین اور خاص طور پر طالبات کو حوصلہ ملا ہے. وہ امید ظاہر کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے حق میں وہ بہت اچھا کریں گی اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس کو اونچائیوں تک لے جائیں گی.
حکومت ہند عرصہ دراز سے ہندوستان کے معاشرتی نظام میں خواتین کو اہم مقام دلانے کے لیے طرح طرح کی اسکیمیں چلا رہی ہے،وہ چاہتی ہے کہ اس پدری نظام میں خواتین کو مرکزیت حاصل ہو،کسی بھی دوسرے معاشرے کے مقابلے مسلم معاشرے میں پدری نظام کا زیادہ غلبہ ہے،ایسے میں پروفیسر نعیمہ خاتون اس عہدے پر رہتے ہوئے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔وہ صرف یہاں زیر تعلیم لڑکیوں کی زندگی میں ہی نمایاں تبدیلی نہیں لا سکتی ہیں بلکہ وہ اپنے عمل سے پورے ہندوستان اور پورے معاشرے کی خواتین کی زندگی پر بھی اثرا نداز ہو سکتی ہیں۔وہ حکومت کو لائحہ عمل بھی دے سکتی ہیں کہ کس طرح مسلم معاشرے میں خواتین کو مرکزیت دلائی جا سکتی ہے۔وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون خواتین کی خود کفالت، ان کی مضبوطی اور قوت فیصلہ کی ایک بہترین مثال بن سکتی ہیں مگر شرط قوت ارادی اور قوت فیصلہ ہے۔
[email protected]