جوہانسبرگ کا میئر

0

7 سال قبل جب پہلی بار لندن کے میئرصادق خان بنے تھے تو ہر کوئی حیرت زدہ تھا۔کیوں نہ ہو لیبرپارٹی کے خان نے کنزرویٹوپارٹی کے جیک گولڈ اسمتھ کو بری طرح شکست دی تھی۔ خان کو 57 فیصد تو اسمتھ کو 43فیصد ووٹ ملے تھے۔اب ایک اورخبرآئی ہے کہ جنوبی افریقہ کے بزنس کیپٹل جوہانسبرگ کامیئر بھی پہلی بار ایک مسلم بنا ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی پارٹی اورچھوٹی سی آبادی سے تعلق رکھنے تھپیلوعمادنے جنوبی افریقہ میں وہ کردکھایا جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے جوہانسبرگ کے میئر کے انتخاب میں سب سے بڑی پارٹی کے امیدوار کو شکست دی ہے ۔جنوبی افریقہ میں مسلم اورہندوکمیونٹی کی آبادی برائے نام ہے ۔مسلم آبادی 1.6فیصدہے تو ہندوکمیونٹی کی آبادی ایک فیصد ۔اکثریتی آبادی عیسائیو ں کی ہے ۔’الجماعۃ ‘کے عماد نے جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی پارٹی ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار کو شکست دی ۔حالانکہ ان کی جیت میں حکمراں افریقن نیشنل کانگریس کا بہت بڑا رول ہے ۔پھر بھی عماد کی یہ جیت بہت بڑی ہے اور کافی اہمیت رکھتی ہے ۔وہ بھی ایسے وقت جب مغرب میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت ودشمنی کی مہم چل رہی ہے ۔ حال ہی میں سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کاواقعہ پیش آیا ،جس پر عالم اسلام ناراض ہے ۔ ادھرکینیڈا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے خطرے سے نمٹنے کے لئے کینیڈین حکام نے پہلی بار خصوصی نمائندہ برائے اینٹی اسلامو فوبیا مقرر کیا ہے۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹرودو نے تویہاں تک کہا ہے کہ ملک میں اسلاموفوبیا اور امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے اسلاموفوبیا سے مقابلہ کرنے اور بہتر مستقبل کی تشکیل کے لئے پہلی بار خصوصی نمائندہ کے طور پر امیرہ الغوابی کو تقرر کیا جا رہا ہے۔انہوں نے امیرہ الغوابی کی تقرری کو اسلامو فوبیا اور اس کی تمام شکلوں میں نفرت کے خلاف جنگ میں ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ امیرہ الغوابی ملک سے اسلاموفوبیا اور نفرت انگریز رویوں کو ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گی۔ ان حالات میںعماد کی جیت سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی بھی دنیامیں انسانیت ، پیار ومحبت ہے اورلوگ مسلمانوں سے بہتری کی امیدکررہے ہیں۔
عماد کی پارٹی ’الجماعۃ‘زیادہ پرانی نہیں ہے۔ 23اپریل 2009کو قائم ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی کے لئے پہلی بار2009میںالیکشن میں کھڑی ہوئی لیکن 400 رکنی اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی اورووٹ صرف 0.15 فیصد ملے تھے۔اس کے بعد 2014کے الیکشن میں بھی ایک بھی سیٹ نہیںملی اورووٹ صرف 0.14 فیصد ملے۔قیام کے 12سال بعد پارٹی نے پہلی بار 2019کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت کر اپنا کھاتہ کھولاتھا۔ ووٹ تب بھی صرف 0.18 فیصد ملے تھے۔اس طرح 2009اور2014میں کسی بھی الیکشن میں پارٹی نے ایک سیٹ پر نہیں جیتی تھی، البتہ 2016کے بلدیاتی پارٹی کو مقامی سطح پر 9سیٹیں ملیں۔ رہی بات جوہانسبرگ کی تو 2020کے ضمنی میونسپل انتخابات میں پارٹی نے جوہانسبرگ سٹی کے ایک وارڈ میں ڈیموکریٹک الائنس کو شکست دے کر پہلی بار کھاتہ کھولاتھا اوراب پارٹی نے جوہانسبرگ میئر کی سیٹ پر قبضہ کرلیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے پارٹی کو اپنی پہچان بنانے اوراپنے قدم جمانے میں کافی مدد ملے گی۔کیونکہ جب عماد کی جیت بین الاقوامی خبر بن سکتی ہے ۔تو ملک میںعماد اوران کی پارٹی کی پہچان کیوں نہیں بنے گی ۔ ایک کونسلر سے میئر بننے پتہ چلتاہے کہ عماد بلکہ ان کی پارٹی کا مستقبل روشن ہے ۔
جنوبی افریقہ میں کس قدرتبدیلی آگئی ہے ۔ ایک وقت تھا جب وہاں نسل پرستی اس قدر حاوی تھی اورملک اس میں اس قدر بدنام تھا کہ نیلسن منڈیلاکو وہاںبہت بڑی تحریک چلانی پڑی تھی ۔آج حال یہ ہے کہ چھوٹی سی پارٹی اورکمیونٹی کا امیدوار بھی آسانی سے کامیاب ہورہاہے ۔ اسے لوگوں اورپارٹیوں کی حمایت حاصل ہورہی ہے ۔کوئی بھی سمجھ سکتاہے کہ دنیا میںایک طبقہ اگرنسلی ومذہبی نفرت ودشمنی کو بڑھاوا دے رہا ہے تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اقلیتوں کو آگے بڑھارہے ہیں ۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS