چیلنجز میں مایا: نول کشور کمار

0

نول کشور کمار

لوک سبھا انتخابات کی بساط سمیٹی جاچکی ہے اور اب مرکز میں پھر سے نریندر مودی کی حکومت ہے۔ پھر بیشک، یہ اتحادی/ اقلیتی حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ اس سیاسی جنگ میں سبھی نے کچھ نہ کچھ پایا ہی ہے۔ مثلاً، بی جے پی اپنے دم پر اکثریت سے 32سیٹیں دور رہنے کے باوجود اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔نتیش کمار اور چندربابونائیڈو کو اقتدار میں شراکت دار بننے اور ایک طرح سے فیصلہ کن شراکت دار بننے کا سکون حاصل ہورہا ہے۔ کانگریس 99سیٹیں جیت کر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو کو اترپردیش میں بی جے پی کو کراری شکست دینے کی خوشی حاصل ہوئی۔
اگر کسی کو کچھ نہیں ملا تو بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) کی سربراہ مایاوتی ہیں۔ انہیں الیکشن میں صرف شکست ہی ملی۔ یہاں تک کہ ان کے امیدوار کو نگینہ سیٹ پر بھی شکست ملی جہاں سے چندرشیکھر آزاد امیدوار کے طور پر جیتنے میں کامیاب رہے۔ حالاں کہ مایاوتی کو یہ ناکامی گزشتہ مرتبہ یوپی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بھی ملی تھی۔ لیکن اب انہیں یقین تھا کہ اسمبلی الیکشن میں نہ سہی، لوک سبھا میں تو انہیں دلت-مسلمان اور اعلیٰ ذات کے رائے دہندگان کا ساتھ ملے گا۔ لیکن ہوا اس کے عین برعکس۔ مایاوتی کے ہاتھ سے بی ایس پی کا کاڈر ووٹ بھی چلا گیا۔ ان کے ہاتھ آئے تو صرف جاٹو ووٹ۔ غیرجاٹو دلتوں نے مایاوتی کی سیاست کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ظاہری طور پر یہ مایاوتی کے لیے سب سے مشکل دور ہے، کیوں کہ ایس پی اور کانگریس پارٹی یہ ناریٹو قائم کرنے میں کامیاب رہی ہیں کہ بی ایس پی بی جے پی کی ’بی‘ پارٹی ہے اور الیکشن میں اس نے صرف بی جے پی کی مدد کرنے کے لیے اپنے امیدواروں کو اُتارا ہے۔ مایاوتی کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے کہ اپنی اس شبیہ کو تبدیل کریں۔ تبھی اپنا اور اپنی پارٹی کا وجود بچا سکیں گی۔ ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ وہ اس بار خاموش نہیں بیٹھی ہیں۔ تمل ناڈو میں اپنی پارٹی کے ریاستی صدر رہے آرم اسٹرانگ کے قتل کے بعد انہوں نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور اپنے کاڈر کو پیغام دیا ہے کہ اب وہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی اپنی حاضری درج نہیں کرائیں گی، بلکہ لوگوں کے درمیان جائیں گی بھی۔ اس دوران یہ خبر بھی آرہی ہے کہ بی ایس پی ہریانہ الیکشن میں راشٹریہ لوک دل کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے گی۔ مایاوتی کی نظر اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی الیکشن پر بھی ہے۔ وہ چاہیں گی کہ راشٹریہ لوک دل کے ساتھ ان کا معاہدہ رہے تاکہ مغربی یوپی میں انہیں کامیابی مل سکے۔ لیکن موجودہ سیاسی صورت حال یہ ہے کہ ان کی اس پہل کو بھی اسی طور پر دیکھا جارہا ہے کہ وہ آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دباؤ میں ہیں، کیوں کہ راشٹریہ جنتا دل موجودہ وقت میں مرکزی حکومت میں شراکت دارہے۔ سیاسی گلیاروں میں یہ بات بھی تیزی سے پھیلی ہے کہ یہ پہل انہوں نے امت شاہ کے کہنے پر کی ہے۔ اپنی اور اپنی پارٹی کے وجود کو بچانے کے لیے جدوجہد کررہی مایاوتی کے لیے اب صورت حال یہ ہے کہ وہ اس کی تردید بھی نہیں کرپارہی ہیں۔ وہ بی جے پی کے دباؤ میں ہیں، یہ بات لوک سبھا انتخابات کے دوران تب اور بھی واضح ہوگئی تھی جب انہوں نے اپنے بھتیجے آکاش آنند کو الیکشن کے دوران ہی انتخابی محاذ سے الگ کردیا تھا۔ تب آنند پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ناسمجھ اور ناتجربہ کار ہیںجبکہ آنند نے انتخابی ریلیوں میں مرکز میں برسراقتدار مودی حکومت کے خلاف حقائق پر مبنی طریقہ سے حملہ بولاتھا۔
دوسری جانب بی ایس پی کے کاڈر ووٹر بھی اب اس کشمکش میں ہیں کہ وہ مایاوتی کا یقین کریں یا نہ کریں۔ ایک طرف تو وہ کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے خلاف مضبوط طریقہ سے اپنی بات کہتی ہیں، لیکن دوسری طرف بی جے پی کے معاملہ میں خاموش رہتی ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے، جس میں مایاوتی بری طرح پھنس چکی ہیں۔ نہ تو کھل کر اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے ساتھ جاپارہی ہیں اور نہ ہی کھل کر این ڈی اے کا حصہ بننے کا فیصلہ کرپارہی ہیں۔ بہرحال، مایاوتی کے پاس چیلنجز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مثلاً ان کا سب سے پہلا چیلنج تو یہی ہے کہ وہ اپنے کاڈر ووٹرس(بالخصوص جاٹو برادری) کا اعتماد دوبارہ کیسے حاصل کریں، جن کے دل میں یہ یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ وہ بی جے پی کی ساتھی بن چکی ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج غیرجاٹو ووٹرس کو صف بند کرکے اپنے پالے میں لانے کا ہے۔ اس معاملہ میں ان کا چیلنج اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے، کیوں کہ پسماندہ، دلت اور قبائلی(پی ڈی اے) کے فارمولے کو اپنا کر اکھلیش یادو نے مایاوتی کو اب تک کا سب سے بڑا چیلنج دیا ہے۔ اکھلیش نے اس فارمولے سے بی جے پی کے ذریعہ انتہائی پسماندہ کو سادھنے(اپنی جانب کرنے) کی امید کو چکناچور تو کیا ہی، مایاوتی کو بھی اس بڑے طبقہ والے ذاتوں کے گروپ سے دور کردیا۔ اب اگر مایاوتی کو واپسی کرنی ہے تو انہیں اکھلیش کے پی ڈی اے فارمولے کی کاٹ یا تو تلاش کرنی ہوگی یا پھر پی ڈی اے کو زیادہ ایمانداری سے اپنانا ہوگا۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ اترپردیش کے عوام پہلے اسمبلی الیکشن اور پھر لوک سبھا الیکشن میں ان کا سیاسی سلوک دیکھ چکے ہیں۔
آکاش آنند کو دوبارہ سب کچھ سونپنے کا فیصلہ واپس لینے کے باوجود انہیں چندرشیکھر کی بڑھتی سیاسی دخل اندازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وجہ یہ ہے کہ چندرشیکھر اس بار کے لوک سبھا میں دلت طبقہ کی خواہشات کی نمائندگی کررہے ہیں۔ یہ لوک سبھا میں حلف برداری اور صدر کے خطاب پر اپنی تقریر میں چندرشیکھر نے واضح کردیا ہے کہ سیاسی میدان میں اب وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ خیر، سیاست میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہی تلخ حقیقت ہے۔ اسے خود مایاوتی نے بھی 2007میں اپنے بوتے پر یوپی اسمبلی الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے ثابت کیا ہے۔ لیکن یہ تو انہیں یاد ہونا ہی چاہیے کہ 2007میں ملی شکست کے بعد ایس پی نے 2012میں انہیں ہرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تب بھی ایک ناریٹو یہی تھا کہ بی ایس پی اور بی جے پی، دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ایسے میں اب اگر مایاوتی کو اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد میں کچھ کرنا ہے تو انہیں سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ سیاست میں ناریٹو کی اہمیت اب وہ بخوبی سمجھ چکی ہوں گی، یہ تو قبول کیا ہی جانا چاہیے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS