دل میں بسی ہو جس کے محبت رسولؐ کی

0

ڈاکٹر حافظ کرناٹکی

اتنی بات تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دین و ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسولؐ سے سب سے زیادہ یعنی اپنی آل اولاد، ماں باپ، زمین و جائیداد، عزت آبرو اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت کریں۔ ان کے لیے اپنی جان قربان کردینے کو اپنی سعادت جانیں۔ ان کے لیے اپنا مال و زر، آل اولاد، اور تخت و تاج قربان کردینے کو اپنی خو ش بختی سمجھیں۔ کیوں کہ محبت کا جو حاصل ہے وہ سوائے خدا کی خوشنودی اور حضورؐ کی تابعداری کے کچھ بھی نہیں ہے۔
آپ خود ہی غور فرمائیے کہ ایک غلام کی سب سے بڑی سعادت اور خوش بختی کیا ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کے مالک کی خوشی، تابع داری اور اس کے حکم کی بجاآوری۔ ہم نے اور آپ نے بھی بار بار دیکھا ہوگا کہ وہ بندہ لاچار و مسکین جو بدقسمتی سے اپنے مالک حقیقی اور مربی کائنات کی عبدیت کے ساتھ ساتھ کسی مخلوق کی غلامی میں آجاتا ہے۔ یا کسی کا نوکر بن جاتا ہے تو اس کی خوشنودی کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتا ہے۔ اپنے جسم و جان کی ساری طاقت لگاکر اس کی خدمت کرتا ہے۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کا سارا سونا لٹا کر اس کی توجہ اور محبت کا طلبگار بنارہتا ہے۔ جبکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مالک یا آقا کی توجہ اور محبت سے اس کی دنیا نہیں بدلے گی۔ اس کے باوجود اگر وہ اس پر صبر سے کام لیتا ہے اور اپنے حقیقی و مجازی دونوں آقاؤں کی فرماں برداری میں لگا رہتا ہے اور اپنی استطاعت کے مطابق اس میں کمی اور کوتاہی نہیں کرتا ہے تو وہ دوہرے اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ؛’’تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر ملے گا۔ اہل کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمدؐ پر بھی ایمان لایا ۔ اور غلام بندہ جس نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیا اور اپنے مالک کا بھی حق ادا کیا اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی تھی، جس کی اس نے تعلیم و تربیت اچھی طرح کی پھر آزاد کرکے اس سے شادی کرلی۔‘‘
معلوم یہ ہوا کہ وہ بندہ جو مومن ہے اس کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی کی حکم کی تعمیل میں اپنی سعادت اور خوش بختی محسوس کرے اور محبت کا اور عشق کا یہ تقاضہ ہے کہ اپنے محبوب کی حکم کی تعمیل میں اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کرے۔ ہم آئے دن اس قسم کے واقعے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کی محبت میں جان دے دی۔ گویا عشق اور محبت میں جان دینا معمولی بات ہے۔ تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ بندۂ مومن عشق الٰہی اور عشق رسولؐ کے مقابلے میں اپنی جان کو اہمیت دے گا۔
عشق رسولؐ کا ایک بڑا اور اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ آپؐ کی محبت کے ذریعے وہ اپنے مالک حقیقی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی اطاعت کررہا ہے۔ یعنی چوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؐ سے محبت کا حکم دیا ہے اور ایک مومن پر آپؐ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اس لیے بندۂ مومن اس حکم الٰہی کی تکمیل کررہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ نبی کریم ؐ سے محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مومن بندوں کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل درجات بلند کرتی ہے اور نیکیوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ؛’’اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اس پر بھی ایمان لائے جو محمدؐ پر اتاری گئی ہے۔ اور دراصل ان کے رب کی طرف سے سچا دین بھی وہی ہے اللہ نے ان کے گناہ معاف کردیے اور ان کے حال کی اصلاح کردی۔ ‘‘ (سورہ محمد )
ایک اور جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے کہ؛’’اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی تو اس نے گویا بڑی عظیم کامیابی حاصل کرلی۔‘‘ (الاحزاب)
اس سے بھی زیادہ واضح اور صاف وہ آیت ہے جسے علماء امتحان اور سچا معیار قائم کرنے والی آیت کہتے ہیں، چنانچہ فرمان الٰہی ہے کہ؛’’کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔‘‘ (آل عمران )
دراصل اللہ کے رسولؐ کی سچی اتباع اللہ تبارک و تعالیٰ سے سچی اور حقیقی محبت کی روشن دلیل ہے۔ اور آپؐ کی اتباع آپؐ سے بے اندازہ محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور نہ مقبول ہے۔ اور یہ ساری چیزیں، یعنی اللہ سے محبت اور اللہ کے رسولؐ سے محبت ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم ترین نعمتیں ہیں۔ یہاں پر غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی اتباع سے بندے کو یہ اضافی نعمت بھی مل رہی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اسے اپنامحبوب بندہ بنالیتا ہے۔ اس کے گناہوں اور اس کی بھول چوک اور کوتاہیوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ اور اسے اپنے نیک اور مقرب بندوں میں شامل کرلیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ؛’’اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایاہے جیسے نبی، صدیق، شہدا اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔‘‘
حضورؐ سے محبت کے انگنت فائدے ہیں، ان سے سچی محبت رکھنے اور ان سے عشق کرنے کے فوائد کا شمار آسان نہیں ہے۔ ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ مومن بندہ اپنے اس عمل کے ذریعے ایمان و ایقان کی چاشنی اور سرشاری حاصل کرلیتا ہے جس سے عام لوگ محروم رہتے ہیں۔ اور سچ پوچھیے تو یہ اتنی بڑی نعمت اور کامیابی ہے اس کے سامنے ہر کامیابی اور دنیا کی ساری نعمتیں بے وقعت ہیں۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ؛’’تین خصلتیں جن میں پائی گئیں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی لذت محسوس کرے گا۔ اوّل اللہ اور اس کے رسولؐ اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوم وہ جب کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے محبت کرے، سوم کفر کی طرف پلٹنا اس کے لیے ایسا ہی ناپسندیدہ ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناپسندیدہ ہوتا ہے۔‘‘
جب کوئی بھی مسلمان جس کے سینے میں ایمان کاالاؤ روشن ہو نبی کریمؐ سے محبت کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے بدلے میں اسے ایسے بڑے انعام سے نوازتا ہے جس کی تمنا ہر اہل ایمان اور عاشق رسولؐ کوہوتی ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ عاشق صادق اس کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ انگاروں پر لوٹتا ہے کہ کسی بھی طرح اسے اس کے محبوب حضورؐ کی محبت نصیب ہوجائے اور اس کے طفیل میں اللہ جلّ شانہ کی توجہ حاصل ہوجائے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب وہ بندہ جنت میں داخل ہوجائے اور آپؐ کاساتھ پالے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ اس شخص کے بارے میں آپؐ کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت تو کرتا ہو مگر اس کے بلند مقام تک نہ پہونچاہو۔ تو آپؐ نے فرمایا ہر آدمی اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا۔ ‘‘
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحرا نشین نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسولؐ قیامت کب قائم ہوگی؟آپ ؐ نے دریافت فرمایا کہ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے قیامت کے لیے کوئی خاص تیاری تو نہیں کی ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ کیا ہم لوگ بھی۔ جس سے محبت کرتے ہیں اس کے ساتھ ہوں گے؟ تو آپؐ نے فرمایا ہاں تم لوگ بھی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اس دن ہم لوگ اس جواب سے بہت خوش ہوئے۔عشق رسولؐ کا ایک بہت ہی اہم اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے بندے کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ دراصل ایمان ہی مومن بندے کی سب سے بڑی پونجی اور اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہر عقل مند مسلمان اور ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس سرمایہ کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ اس کی زینت میں اضافہ کرے۔ اس کی تکمیل اور تحریم کا اہتمام کرے اور ہر وہ چیز جو اس کی تکمیل میں آڑے آئے، اس کی تکمیل میں رکاوٹ بنے اور کمی کا ذریعہ ٹھہرے اسے فوراً چھوڑدے۔ کچھ لوگ محض ایمان کی تکمیل کے بھرم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کامل ایمان ہوتا نہیں ہے، مگر وہ دکھاوے کے طور پر اپنے آپ کو بڑا مومن ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایمان کے وعدے داروں کو مخاطب کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ؛ وہ جس ایمان کے دعوے دار ہیں وہ ناقص ہے جسے پورا کرنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ؛’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے۔ اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کرچکا ہے۔ جس سے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کربہت دورنکل گیا۔‘‘ (النساء ۱۳۶)
یاد رہے کہ اس آیت کریمہ میں ایمان لانے والوں کو ایمان لانے کے لیے جو کہا گیا ہے اس کے گہرے مطالب ہیں۔ یعنی ایمان لانے کے بعد اس پر کامل و مکمل انداز میں قائم رہنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اور ایمان لانے کے بعد ہر مسلمان سیدھے راستے پر ہی ہوتا ہے اس کے باوجود وہ ہر نماز میں اھدناالصراط المستقیم یعنی اے اللہ مجھے سیدھاراستہ دکھا پکارتا رہتا ہے۔ اسی طرح ایمان لانے کے بعد بھی ایمان کے استقرار پر اصرار ضروری ہے۔
فرمان الٰہی ہے کہ؛’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کادوہرا حصہ دے گا۔‘‘ (الحدید )
وہ سارے نیک اعمال، مستحکم اعتقادات جن سے ایک بندے کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے ان میں سے ایک بہت ہی اہم نیکی عشق رسولؐ ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ؛’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
جو شخص سچ مچ رسولؐ سے محبت رکھتا ہے ان کے عشق کا دعویدار ہے اس کے لیے یہ کتنی بڑی نعمت اور خوش خبری ہے کہ عشق رسولؐ دراصل ایک مومن کے لیے امن و امان کی ضمانت ہے۔
’’حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ عہد نبویؐ میں عبداللہ نامی ایک شخص تھا جسے حمار کا لقب دیاگیاتھا وہ شخص اپنی مضحکہ خیز باتوں سے حضورؐ کو ہنساتا اور خوش رکھتا تھا، اللہ کے رسولؐ نے شراب پینے کے جرم میں اسے کوڑے بھی لگائے تھے۔ ایک دن وہ آپؐ کی خدمت میں شراب پینے کے جرم میں لایاگیا تو آپؐ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ جس پر کسی صحابی نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کو کتنی بار اس حالت میں لایاگیا جب آپ ؐ نے یہ سنا توفرمایا؛ اس کے اوپر لعنت نہ بھیجو اللہ کی قسم میں اس کے بارے میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS