مولانا طارق شفیق ندوی
عالم اسلام کی مشہور و معروف دینی وملی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے معتمد تعلیم حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ایک بے مثال معلم، ایک مشفق مربی، ایک جرأت مند صحافی، ایک عظیم دانشور، ایک سلیم الفکرادیب اور ایک انتہائی رحیم وکریم انسان تھے اور حسن و حسین کے عکس جمیل تھے، میں نے اب تک اپنی زندگی میں ایسے شریف وصالح کوعبادالرحمن، متقی ومتواضع کو کم دیکھا تھا، وہ ادب اسلامی کے ترجمان اور ذہن رسا کے مالک تھے، ان کی با تیں صاف و شفاف اور واضح ہوتیں، ان کی تحریریں رشد وہدایت سے معمور ہوتیں، ان کے جذبات شریعت الٰہی کے قالب میں ڈھلے ہوتے، ان کے افکار و خیالات کوثر وتسنیم سے دھلے ہو ئے معلوم ہوتے تھے اور ان کی کتاب زندگی کا ہر ورق بدرکامل کی طرح روشن تھا، اچانک آفتاب عالم تاب کے غروب ہو جانے سے ہر چہار جانب اندھیرا چھا گیا،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مخدوم گرامی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کے برادر سعید مولانا سید محمد واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور شاگرد رشید مولانا شفیق الرحمن ندوی نوراللہ مرقدہ کو دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ایک ہی ساتھ طلب کیا گیاتھااور 1973 میں ان دونوں حضرات کو اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے اور اپنی خدمات کو پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی، مولاناسیدمحمد واضح رشید ندوی نے فوراًحکم کی تعمیل کی چونکہ وہ جہاں تھے وہاں سے بیزار تھے اور والدمحترم ایک سال تاخیر سے تشریف لائے۔چونکہ وہ ایک ذمہ دار عہدہ پر تھے، جس کو یک لخت چھوڑ کر آنا آسان نہ تھا، دونوں بڑی تنخواہ چھوڑ کر آئے تھے ، دونوں کا میدان ادب و صحافت تھا، دونوں ادب کے استاذ مقرر ہوئے، دونوں کے گھنٹے علیا درجات میں لگے، دونوں کا تعلق ’’الرائد‘‘ سے رہا، دونوں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کے لئے معاون ومشیر بنے، دونوں خاموش مزاج، کم گو اورکم آمیز تھے۔ دونوں شریف النفس و کریم النفس تھے۔ دونوں نے عمرعزیز اس احتیاط سے گزاری کہ ان کا آشیاں کسی شاخ چمن پر بار نہ ہو۔ دونوں کی قابل رشک موت اپنے بستر پر فجر کے وقت ہوئی۔ یقین جانئے دونوں بزرگوں میں غیر معمولی مماثلت تھی، فرق صرف اتنا تھا ایک کا تعلق آل رسول سے تھا اور دوسرے کا تعلق خاندان صدیق ؓسے تھا،والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ نے ہر جگہ صدیقیت کی بھر پور نمائندگی کی اور فدائیت کا ہر مقام پر ثبوت دیا۔ مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ہمیشہ برادرانہ اور مشفقانہ معاملہ کیا، انہوں نے اپنی متعدد تصانیف پر والد ماجد سے نظر ثانی کرائی، دو کتابیں تو آج بھی یاد ہیں: 1-تاریخ الادب العربی، العصر الجاہلی، 2- تاریخ النقد للأدب العربی۔ اسی طرح والد ماجد کے پاس اپنے لائق فرزند مولانا سیدجعفر مسعود ندوی کو الگ سے کتابیں پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے تاکہ انھیںعربی صرف و نحو اور بلاغت پر عبور حاصل ہو۔ ایک مرتبہ دوران گفتگو مجھ سے فرمایا کہ آپ کے والد تعمیری نقد، مخلصانہ اعتراض اور قابل عمل و با مقصد مشوروں کے عادی تھے۔ (شاید وہ میری تربیت فرما رہے تھے)
مولانا سید محمد واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا شرف دیدار ایام طفولیت سے حاصل رہا، یہ الگ بات ہے کہ اپنی کم سنی کم علمی اور کم فہمی کے سبب شرف بار یابی بہت کم رہی لیکن جب دارالعلوم سے فراغت کے بعد ان سے شرف نیاز اور شرف بار یابی کا سلسلہ جاری ہوا تو دیدارشوق اور تمنائے ملاقات میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا، اب جاتا تو تلاش کر کے ملتا، راحت و فرحت محسوس کرتا، گفتگو دلچسپ ہوتی، مفید ہوتی، مشعل راہ ہوتی اور میرے معیار اور مذاق کی ہوتی۔
والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 24؍جون2002کے بعد تو ان کی بے پناہ محبت وشفقت حاصل ہوئی۔ مخدوم گرامی حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی مدظلہ کا تو حکم تھا کہ لکھنؤ جب کبھی آؤں، ندوہ میں ہی قیام کروں اور کھانا ساتھ کھاؤں،لیکن مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ تو ہر بار اس کی تاکید کرتے، چلتے وقت بطور یاد دہانی فرماتے کہ کھانا ساتھ کھایئے گا، میں انتظارکروں گا۔ کئی بارتو کھانے کے دسترخوان میں دونوں اخوان الصفااپنے درمیان بیٹھا لیتے اورازراہ شفقت کھانے کی چیزیں میری طرف بڑھاتے چلے جاتے اور جب کبھی میری جانب سے تکلف پاتے تو بڑی محبت سے ایک ایک لقمہ پیش کرتے اوراس درمیان والدہ ماجدہ کی، بھائی کی، تمام بہنوں کی خیریت دریافت کرتے، اندازہ ہوتا کہ ان حضرات کی نگاہ میں والد ماجد کی کیا قدرومنزلت تھی اورگلشن شفیق کے ہر پھول سے کس قدر محبت، انسیت اور اپنائیت ہے۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے
مولانا سید محمد واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے لڑکپن میں سب سے پہلی ملاقات ’’الرائد‘‘ کے سامنے پارک میں ہوئی تھی، میں کان میں ریڈیو لگائے کمنٹری سنتا اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا کہ مولانا نے آواز دی، ہاتھ پیر پھول گئے، ڈرتا ڈرتا قریب گیا تو مولانا نے پوچھا کہ انڈیا کا کیا اسکور ہے؟ جان میں جان آئی، میں نے تفصیل سے بتایا تو فرمایا کہ گواسکر جب تک پچ پر ہے امید باقی ہے، پھر مجھ کو محو حیرت دیکھ کر خودہی فرمایا کہ میں دہلی سے ریڈیو کی سروس چھوڑ کر آیا ہوں، اس لئے ریڈیو سے خاصی دلچسپی ہے۔
دوسری ملاقات کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ اس زمانہ میں مجھ ناچیز کو بیرونی ممالک کے ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا بڑا شوق تھا، جس کے لئے الرائد کے دفتر برادر مکرم محمدعثمان خان ندوی کے پاس اکثر جاتا تھا، ایک مرتبہ عثمان بھائی موجود نہیں تھے میں واپس آناہی چاہتا تھا کہ مولانا نے آواز دی اور ایک درجن سے زائدٹکٹ الجزائر اورعمان کے دئیے اور فرمایا: میں تمہاری دلچسپیوں سے واقف ہوں، تم مولانا شفیق صاحب کے لڑکے ہو، آئندہ آنا تو تھوڑی دیر میرے ساتھ بیٹھنا۔ اب اس پرکشش ذات سے میری دلچسپی بڑھ گئی تھی، ادھر سے گزرتا توملاقات کرتا، وہ میری حوصلہ افزائی کرتے، غایت درجہ ہمدردی کا معاملہ کرتے، ثانویہ رابعہ میں النادی العربی کے مقابلہ خطابت میں اول پوزیشن لایا توانعام سے نوازا۔ فرمایا: کہ عربی ادب میں آپ کے والد کی صلاحیت بہت ممتاز ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی عربی و اردو میں امتیازی صلاحیت پیدا کریں، اس کے لئے ضروری ہے کہ روز پانچ سطر اردو سے عربی ترجمہ کر کے دکھائیے، افسوس کہ اپنی آزادروش کی وجہ سے فائدہ نہ اٹھاسکا، ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں۔
1991 دارالعلوم سے تعلیمی فراغت کے بعد مولانا سیدمحمد واضح رشید ندویؒ سے خوب خوب ملاقا تیں رہیں اور اہم موضوعات پر کھل کر باتیں ہوئیں، مولانا رحمۃ اللہ علیہ مجھ نا چیز سے ایسے ایسے سوالات کرتے کہ احساس شعور و ادراک کو تقویت پہنچتی۔ ملنے سے پہلے تیاری بھی کرنی پڑتی۔ دہلی سے آتا تو حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی خیریت دریافت فرماتے، ملی کونسل کی سرگرمیوں سے واقفیت چاہتے اورفرماتے آپ سے متعلق تمام خبریں اخبارات کے ذریعہ مل جاتی ہیں۔
6 مارچ 1995کو اپنی شادی کے بعد ندوہ آیاتو مولانا رحمۃاللہ علیہ نے شادی کی رودادسنی (جبکہ والد ماجد نوراللہ مرقدہ سے بھی سن چکے تھے) میں نے بتایا کہ’’ میں بارات لے کر نہیں گیا‘‘۔ گاؤں کی مسجد میں معمول کے مطابق بعد نمازمغرب نکاح ہوا اور میں نے عین نکاح کے وقت کھڑے ہوکر کہا کہ ’’میرا نکاح وہی پڑھائے جس نے جہیز نہ لیا ہو‘‘۔ پھرولیمہ کا ذکر شاندار ہوا، ایک ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ خاموشی سے سبب سنتے رہے اور مسکراتے رہے پھر انہوں نے پوچھا کہ آپ کے یہاں دولہا تو خوب سجتے ہیں لیکن معلوم ہوا کہ آپ نے بہت سادگی اختیار کر رکھی تھی ۔ میں نے کہاجی! پرانے کپڑے اور پرانی شیروانی میں نکاح ہوا اور شیروانی جیسی نفیس اور باوقار لباس پر کسی چیز کا اضافہ شیروانی کی توہین سمجھتا ہوں۔
حضرت مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی مدظلہ پاس ہی بیٹھے تھے اور مسکرائے جا رہے تھے چلتے وقت فرمایا کہ ملاقات کرتے رہا کیجیے۔ آپ واقعی ندوی ابن ندوی ہیں۔ آپ کی باتیں سن کر انتہائی خوشی ہوئی اور بہت سی باتیں واضح ہوئیںجس سے ذہن صاف ہوا۔اور آپ کوصحیح طور پر سمجھنے کا اتفاق ہوا آپ کے والد مجھ سے بہت قریب تھے۔ اس تعلق سے آپ کو بھی قریب ہونا چاہیے۔ نسیم صبح تیری مہربانی۔
2001میں لیکچرر اردو کی سرکاری نوکری ملنے کے بعد مولانا واضح رشید ندوی سے ملاقات ہوئی تو سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور بار بار کیا، فرمایا کہ اب آپ کو آپ کی اصل جگہ ملی ہے۔ آپ کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ آپ کے اندر تدریسی صلاحیت اچھی ہے اور میں خودآپ کی افہام وتفہیم کی صلاحیت سے متاثر ہوں۔ ان شاء اللہ آپ کی ذات سے آپ کے طلبا ء کو فائد ہ ہوگا۔ آپ کی تنظیمی صلاحیت کا بھی میں معترف ہوں لیکن میں آپ کے لئے اسے مناسب نہیں سمجھتا تھا، یہ بات آپ سے کبھی اس لئے نہیں کہی، کہ کہیں آپ پرگراں گزرے۔ اس کے بعد جب بھی گورکھپور سے آنا ہوا تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ قومی سیاست ملکی حالات اور صوبہ کے احوال پر گفتگوفرماتے۔ جس سے مولانا کی بالغ نظری اور باخبری کا اندازہ ہوتا اور اس بات سے بھی خوشی ہوتی اس قدر بلندی پر ہوتے ہوئے مجھ جیسے کوتاہ ذہن اور الھڑپن طالب علم سے سنجیدہ گفتگو فرماتے ہیں۔ وہ بہت بڑے تھے اور ہر شخص کو اونچائی پر دیکھنا چاہتے تھے۔ اپنی گفتگو سے اس میں معیار و وقار پیدا کرتے تھے۔ اللہ غریق رحمت فرمائے۔ بڑی خوبیوں کے مالک تھے اور قرآن کریم میں اللہ تعالی نے عباد الرحمن کی جن صفات کا ذکر کیا، آپ ان سے بدرجہ اتم متصف تھے: وعبادالرحمن الذین یمشون علی الارض ہونا، واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما۔ً والذین یبیتون لربہم سجداً وقیاما۔