مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی تحریک ’’پیام انسانیت‘‘

0

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

اس دنیامیں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن تاریخ انہیں یاد کرتی ہے جنہوں نے زندگی کے کسی شعبہ میں غیر معمولی خدمت انجام دی ہو اور ملک کی خدمت کی ہو۔ ایسی ہی ایک شخصیت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی یعنی علی میاں کی تھی۔وہ ایک نہایت معزز شخصیت ، معاصر اسلامی تعلیمات کے ایک روشن ترین مینار اور اقدارانسانی کے بیباک مبلغ تھے۔آپ کی ولادت ۵؍دسمبر ۱۹۱۳ء تکیہ کلاں، رائے بریلی، اترپردیش، ہندوستان میں ہوئی اور ۳۱؍دسمبر ۱۹۹۹ء میں انتقال ہوگیا۔ مولانا کے والد سید عبدالحی حسنی کا انتقال جب وہ صرف نو سال کے تھے ہوگیاتھا۔ علی میاں کی پرورش ا ن کی والدہ خیرالنساء جو ایک حافظ قرآن تھیں اور بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی نے کی۔ انہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء، دار العلوم دیوبند، قاسم العلوم لاہور اور لکھنؤ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی۔ انہوںنے تین شعبوں : تفسیر القرآن، حدیث اور عربی زبان وادب میں اختصاص پیداکیا۔ شیخ حیدر حسن خان ٹونکی، شیخ احمد لاہوری، شیخ سید حسین احمد مدنی، شیخ خلیل احمد اور شیخ تقی الدین ہلالی ان کے اساتذہ تھے۔ وہ ایک عظیم مفکر، مؤرخ ، قرآن وحدیث بشمول متعدد دیگر موضوعات اسلامی کے ماہرترجمان تھے۔ انہیں عربی زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ انہیں عربی زبان پر بالکل ایک اصل عرب کی طرح عبور حاصل تھا۔بعض موقعوں پر وہ اصل عرب علماء پربھی فوقیت لے گئے۔ان کی کتاب ’’ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین ‘‘ بیسویں صدی کی عربی ادب کی بہترین کتابو ں میں سمجھی جاتی ہے۔ انہیں مطالعہ تاریخ کا ذوق اپنے والد مولانا حکیم سید عبدالحی حسنی سے ملا۔ ان کے والد ایک مشہور حکیم نیز ایک معروف عالم دین تھے۔ ان کی کتاب موسوم بہ ’’نزہۃ الخواطرــ‘‘ عربی میں آٹھ جلدوں پرمشتمل ایک ادبی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ہندوستان کے کچھ ۵۰۰۰۰علماء ، مذہبی شخصیات اور فقہاء کے سوانحی خاکے ہیں۔

مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی بیسویں صدی کے معروف مجددین اور مفکرین میں سے تھے۔ انہیں ان کی غیر معمولی اسلامی خدمات کے لئے ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔ اسلامی کے تئیں ان کی ادبی اور اصلاحی خدمات انہیں مجددین اسلام کی کہکشاںکی صف میںخاص طور سے برصغیر ایشیا میںشیخ احمد سرہندی مجدد الف، شاہ علی اللہ دہلوی، سید احمد شہید اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کی طرح ایک بلند مقام عطاکرتی ہے ۔
ایک ممتاز عالم اور شام کی عدالت عظمیٰ کے سابق جج سے ان سے ایک ریڈیوانٹرویو میںسوال کیاگیا :’’ آپ کا محبوب ترین شہر کون سا ہے؟‘ ‘ ۔ انہوں نے جواب دیا:’’ میرا آبائی شہر دمشق اور پھر لکھنؤ، میرے دوست شیخ سید ابوالحسن علی ندوی کا شہر‘‘۔ اسی طرح ، عراق کے ایک ممتاز عالم نے ایک مرتبہ ایک ہندوستانی آفیسر کے سامنے تبصرہ کیاتھا، کہ ’’ہم ہندوستان کو لکھنؤ کی وجہ سے جانتے ہیں اور لکھنؤ کو شیخ سید ابو الحسن علی ندوی سے جانتے ہیں‘‘ ۔ اسی طرح کے اور ستائشی کلمات ، جو عرب دنیا میں سنے گئے ، شیخ ندوی کے بین الاقوامی قد پر دلالت کرتے ہیں‘‘۔

سید حبیب الحق ندوی نے بالکل درست کہاہے ، کہ’’ علی میاں کا قلم ان کے دل کا غماز ہے اور وہ دماغ کی بہ نسبت دل کا زیادہ تابع ہے۔ چونکہ عربی جیسے ان کے گھر کی زبان تھی ، انہوں نے اپنی اہم تصنیفات اسی زبان میں لکھی ہیں تاکہ سوتے ہوئے عربوں ، اسلامی مشن کے اولین پیشروؤں، کو جگائیں۔ ان کی شاہکار تصنیف ’ Islam and the World‘ جو اصلًا عربی میں لکھی گئی ہے (ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ) ۱۹۴۵ء میں جب ان کی عمر ۳۲سال سے متجاوز نہ تھی ہے۔ اسے سائنسی مغرب کے لاادری مادی ثقافت کے لئے عظیم ترین چیلنج کے طور پر دیکھا جاسکتاہے جس نے خواہ مغرب میںیا مشرق میں تمام دینی اور روحانی تہذیبوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔بہت سے مستشرقین کویہ کتاب پڑھ کر خطرہ محسوس ہوا۔ پروفیسر آر۔بی سرجینٹ، کیمبرج یونیورسٹی، انگلینڈ کے ڈائریکٹرنے اس کتاب کو مغربی ثقافت کے لئے خطرہ بتایا۔ ان کا تبصرہ ہے، کہ’’اگربرطانیہ میں کتابوں پرپابندی لگانے کا منظور رواج ہوتا تو میںپہلے اس کتاب پر پابندی لگانے کی سفارش کرتا‘‘۔ (The Dyanamics of Islam P. 60-61)

سید شہاب الدین فرماتے ہیں: ’’مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی بیسویں صدی کے نصف ثانی میں بلا اختلاف اسلام کے ایک عظیم ترین شارح تھے، اور عربی زبان پرعبور رکھنے کی وجہ سے، اپنی تحریروں اور تقریروںسے، انہوںنے بر صغیر سے آگے نکل کر ایک وسیع رقبہ کو متاثر کیا، خاص طور سے عالم عربی کو۔ ان کی اسلامی تشریح اعتدال پرمبنی تھی۔ وہ کسی طور پر بھی متشدد نہیں تھے بلکہ وہ اسلام کو نوع انسانی کے لئے بطور ایک رحمت اور تاریخ انسانی میں ایک مثبت اور تخلیقی محرک کے سمجھتے تھے۔ ایک طرح سے اسلام ان کی نظر میں وہ ثقافتی طاقت تھی جس نے عہد جدید میں اپنا تشخص مغربی تہذیب کے تمام ناقابل قبول اعمال کے سامنے بطور ایک زندہ نقطۂ مبارزت کے برقرار رکھا ‘‘۔ (The Fragrance of East Special Issue on Ali Miyan)

بقول استاد گرامی شارق علوی کے ایم۔ اے قریشی جو ایک آئی سی ایس آفیسر تھے وہ سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر تھے۔ ان کی مدت کار ختم ہونے کے بعد انہیں بادشاہ کی طرف سے بلایاگیا۔ الوداعی ہدیہ کے طور پر انہیں بادشاہ کی جانب سے غلاف کعبہ کے دو عدد دئیے گئے اور یہ انہیں یہ ہدایت کی گئی کہ ایک عدد شیخ ابو الحسن علی ندوی کو نیک خواہشات کے ساتھ پہنچایاجائے۔

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ‘ اپنی ذات سے ایک انجمن، امت اسلامیہ کے عظیم وہونہار فرزند ارجمند اور عالم انسانیت کے لئے بہترین نمونہ اور ایک مثالی انسان تھے۔ آپ کی اسلامی شخصیت کے تعارف کے لئے کسی دلیل وبرہان کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ کی جملہ تصنیفات سے جن کی تعداد تقریبًا ۲۰۰؍بلکہ اس سے زائد ہے پورا عالم باخبر ہے، حتی کہ مسلم نوجوانوں کے اندر ان کتابوں کو جمع کرنے او ران سے خالص اسلامی فکر کی غذاحاصل کرنے میں مقابلہ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جذبہ پایاجارہاہے، کیونکہ ان میں اسلامی فکر کاایسا خلاصہ اورنچوڑ پیش کیاگیاہے جس کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ اور ہر محاذ سے ہے۔ ان میں ایک ایسی طاقت وصلاحیت ہے جو اسلام اور اس کے نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال کرسکتی ہے اور مسلمانوں کے دلوںمیں اسلام کی عظمت رفتہ اور اس کے سطوت وغلبہ کی بازیابی کے لئے ایمان ویقین کی چنگاری روشن کرسکتی ہے اور انہیں عالمی قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنے اور عالم انسانی کو جدید جاہلوں، خودساختہ نظریات حیات اور مادی تہذیبوں کے جہنم سے نکالنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔ مولانا مرحوم کی اسلامی شخصیت کو، آپ کی روشن فکر، کائنات کے متعلق آپ کے بے مثال نظریۂ حیات اور مادی تہذیبوں کے متعلق آپ کی وسیع معلومات کے آئینہ میں دیکھا جاسکتاہے۔ اس بناپر مولاناؒ بجاطورپر اس بات کے سب سے زیادہ حق دار تھے کہ آپ کی محبت میں اکرام وتعظیم کے گلہائے عقیدت پیش کئے جاتے رہیں۔ (قافلۂ علم وادب از مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی، ص: ۱۳۹)

تحریک پیام انسانیت:ملک کی بے رحمانہ صورت حال اور انسانی خصوصیات ومعیار سے محرومی سے متاثر ہوکر مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی بے چین روح نے یہ محسوس کیا کہ سماج کے مختلف فرقوں کے درمیان محبت اور میل جول کو فروغ دینے کے لئے فوری طور پر ایک تحریک ’’پیام انسانیت ‘‘ کے نام سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔پیام انسانیت کاخیال سیوان بہار میں وجود میں آیا، جہاں مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ایک اجتماع کوخطاب کرنے گئے تھے جو ایک قتل وغارت گری کے واقعہ کے معًا بعد منعقد ہواتھا جس میں کافی مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں۔اکثریتی فرقے کے ذہنوں میں مسلمانوں کی ایک قابل مذمت تصویر میڈیا کے ذریعہ بٹھائی گئی تھی۔ مولانا کے خطاب نے سامعین میں سے ایک سینئر ہندو شہری سے درج ذیل تبصرہ کرنے پر مجبورکیا:’’ مولانامیں نے صرف دو تقریریں سنی ہیں، ایک سی آر داس (دیش بندھو) کی اور دوسری آپ کی‘‘۔ مسلم اور غیر مسلم یکساں طور پرآپ کے اوپر حق رکھتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ آپ دوبارہ اس شہر میں تشریف لائیں‘‘۔

اس مبارک اور اعلیٰ مہم جو پیام انسانیت کے نام سے مشہور ہے کی تشکیل ۱۹۷۴ء میں الہ آباد میں ہوئی۔ اس کا سبب مولانا کے خود کے الفاظ میں:’’ ہم نے اس متواضع عمل کا آغاز الہ آباد سے کیاہے کیونکہ یہ شہر ’’اللہ‘‘ سے مربوط ہے۔

مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ناظم ندوۃ العلماء اپنے تمام رفقاء کے ساتھ اب بھی پوری طرح اس تحریک کو ہرجگہ عام کرنے میںلگے ہوئے ہیں۔الحمد للہ ملک کے ہر صوبے میں اس تحریک کے ذریعہ دینی واصلاحی اور قومی یکجہتی کے کام بحسن وخوبی انجام پارہے ہیں اور اس کے دوررس اثرات بھی نظرآرہے ہیں۔

اغراض ومقاصد:

۱۔ عمومی طور پرنوع انسانی کی بھلائی اور بھائی چارہ پر مبنی خالصۃًانسانی اور قومی سطح پر باہمی خوش اعتمادی اور محبت اور ہمدردی کا ایک ماحول پیداکرنا۔ تشدد، لاقانونیت، انارکی اخلاقی پستی کا خاتمہ او ر ایک دوسرے کے تئیں ساتھی ہونے کا احساس پیداکرنا۔ بنی نوع انسانی کے دکھ اور تکالیف بانٹنے کے احساس کو عام کرنے کے لئے جلسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کرنا۔

۲۔ مختلف قومی، علاقائی اور وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبانوں میں مفید ثقافتی ادب کی اشاعت۔ خدمت اور قربانی کے ذریعہ مختلف برادریوں اور طبقات کے لوگوں کو ایک ساتھ لانا۔ جو زندگی سے بیزار ہوچکے ہیں ان میں اعتماد بحال کرنا۔ روحانی طورپر مردہ روحوں میں زندگی کا احیاء اور بحالی اور انہیں زندگی کاصالح مقصد دینا۔

۳۔ نسل انسانی اور سماج سے خاتمہ:

(۱) رشوت اور غیر قانونی ممنونیت۔
(۲) اقرباء پروری اور جانبداری۔
(۳) نفرت سے پیداہونے والے غلط تصورات۔
(۴) ذخیرہ اندوزی، نفع اندوزی اور کالا بازاری۔
(۵) فرقہ پرستی۔
(۶) معاشی اور معاشرتی معیار میں تفاوت نیز
(۷) غیر معیاری سلوکی رجحانات اور فحش کاری کے خلاف مکمل جنگ۔

۴۔ غلط رسوم اور ظالمانہ رواجوں کا خاتمہ۔

۵۔ذات، مسلک، رنگ اور جنس سے قطع نظر ، غریب ، پسماندہ، نظرانداز کئے ہوئے ، دبے کچلے ہوئے اور حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کو اٹھانا۔
۶۔ متانت، سماجی خدمت، انکساری، عزت نفس، خود داری، خود اعتمادی، خود آگاہی کا شعور پیداکرنانیز طالب علم، معاشرہ اور آنے والی نسل کی ثقافتی اور عقلی نشوونما جس سے انہیں ایک بہتر اور مفید شہری بننے میں مدد ملے۔

۷۔ ذاتی طور پر اور علاقہ،گاؤں اورقصبہ اورآخر میں ملکی سطح پر ، محبت، الفت اور بھائی چارہ کے احساسات پیداکرنے کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرنا۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں: ’’دوسروں کی تکالیف بانٹنا انسانی کی اعلی ترین خوبی ہے۔ اگرانسان دوسروں کی تکالیف بانٹنے کی اہلیت کھودیتاہے تو وہ دیوالیہ ہوجاتاہے۔ یہاںتک کہ اگر کسی قوم کو امریکہ کی دولت، روس کا انتظامیہ،اورسعودی عرب کے تیل کے کنوئیں حاصل ہوجائیں، خواہ اس میں سونے چاندی کی ندیاں بہنے لگیں، اور خواہ دولت اس پر بارش کی طرح برسنے لگے، پھر بھی وہ کنگال ہے اگر اس میںمحبت کے سوتے خشک ہیں تواللہ کی رحمتیں اس پر نازل نہیں ہوں گی۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ انسان کی آنکھیں اب بھی اشکبارہوسکتی ہیں اور اس کا دل دوسروں کے درد سے اب بھی متاثرہوسکتاہے۔ جو دل یہ صفت کھودے وہ دل نہیں بس پتھر کا ایک ٹکڑاہے۔ ایسے دل کی اللہ کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں ہے، چہ جائیکہ یہ دل کسی مسلمان کا ہو، یا ہندویا عیسائی کاہو۔ انسانی دل کی اہمیت درحقیقت اس کی صفت آرزوکرنے، لرزنے، گریہ کرنے اور محبت کرنے میں پنہاں ہے۔ انسانی دل زمین سے بڑھ کر سرسبز، کائنات سے بڑھ کر وسیع، جھرنے سے بڑھ کر روانی، اور بھاری بھرکم بادلوں سے جو بس برسنے ہی والوں ہوں سے بڑھ کر سخی ہو۔ وہ آنکھ جو نم نہیںہوتی وہ انسانی آنکھ نہیںہے۔ وہ نرگس کی آنکھ ہے۔ وہ دل جو دوسروں کا دددنہیںمحسوس کرتا وہ انسانی دل نہیںہے۔ وہ ایک شیر کا دل ہے۔ وہ پیشانی جو توبہ کے پسینے سے شرابور نہیںہوتی وہ انسانی پیشانی نہیںہے۔ وہ چٹان کا ایک ٹکڑا ہے۔ وہ ہاتھ جو انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے نہیں اٹھتے وہ درحقیقت مفلوج اور بے جان ہوتے ہیں۔ شیر کاپنجہ ایسے شخص کے ہاتھ سے بہتر ہے جودوسرے انسان کا گلا کاٹتا ہے‘‘۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی نے علی میاں کی وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاتھا :’’علی میاں ، جیسے کہ وہ تعظیم کے ساتھ جانے جاتے تھے، وہ ایک عظیم انسان دوست شخص بھی تھے۔ اپنے آخری پیغام میں انہوں نے انڈین ایئر لائنس کے پلین کی اغواکار ی کی یہ کہتے ہوئے بھرپور انداز میںمذمت کی تھی ، کہ’’کوئی بھی شخص، جس کے اندر بنی نوع انسان کے لئے عزت اور محبت ہو ، ایسے عمل کی تائید نہیں کرسکتا‘‘۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے مولانا سچ بات کہنے سے ہچکچاتے نہیں تھے ، خواہ اندرا گاندھی ، راجیوگاندھی، وی پی سنگھ، نرسمہا راؤ یا اٹل بہاری باجپئی کے سامنے ہی کیوںنہ ہو۔ ان کا واحد مقصد اس پیغام کو پہنچانا تھا،جو ان کے خیال میں،تمام طبقات کے لئے بہترہو اور مجموعی طور پر ملک کے لئے بہتر ہو۔

علاازیں علامہ ندوی ایک حقیقی محب وطن تھے اور ہندوستانی ثقافت اور تمدن کے لئے گہری محبت رکھتے تھے۔ ملک کے تئیں ان کی عقیدت شفاف اوربغیر کسی شبہہ کے تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علامہ ندوی ہندوستانی ثقافت کے بہترین نمائندے تھے۔ ان کی داستان زندگی درخشاں کاموں کی ایک کتاب ہے۔ پیمائش کا ایسا کوئی آلہ نہیں جس سے کوئی ان کی ملکی خدمات کو ناپ سکے اورسمجھ سکے۔

آج مسلمان ایک سخت مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ ہندوستان قانونی طور سے غیر مذہبی جمہوریت ہے جہاں سارے مذاہب کے لوگ یکساں حقوق اور مذہبی آزادی رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ پولیس کے ذریعہ انہیں غلط طریقے سے جرم میں ملوث کیاجاتاہے اورمیڈیا کے ذریعہ مختلف مجرمانہ معاملات میں گڑھی ہوئی اور توڑ مروڑ کر پیش کی ہوئی کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔ نتیجتًا معصوم مسلمانوںکی ایک بڑی تعداد ملک کی مختلف جیلوں میںحسرت آس کے عالم میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ تو بس انصاف، آزادی اور جمہوریت کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔

ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ایسی عدم مساوات واقع نہیںہونی چاہئے۔ وقت کی یہ ضرورت ہے کہ علامہ ندوی رحمہ اللہ کی تحریک پیام انسانیت کو زندہ کیاجائے اور اس میںنیا جوش پھونکا جائے تاکہ اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق غلط تصورات کو رفع کیاجاسکے اور ملک میں امن اور آشتی کا ماحول قائم ہوسکے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS