ازقلم: امام علی فلاحی۔
ایم۔اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
یوم جمہوریہ (چھبیس جنوری) ملک ہندوستان کا ایک تاریخی اور یادگار دن ہے کیونکہ اسی تاریخ کو ملک ہندوستان کا قانون نافذ ہوا تھا، اسی تاریخ کو ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک قرار پایا تھا، جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ جینے اور رہنے کا حق ملا تھا۔
29 اگست 1947 کو یہ طے کیا گیا تھا کہ آزاد ہندوستان کا اپنا آئین ہونا چاہیے جسمیں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق بھی محفوظ ہوں ساتھ ہی ملک کی خوش حالی اور امن و امان کی بھی ضمانت ہو۔
اسی کے پیش نظر ایک دستور ساز اسمبلی بنائی گئی پھر اس اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جسکے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر مقرر کیے گئے، پھر اس کمیٹی نے دوسال، گیارہ مہینے، اٹھارہ دن یعنی کی تین سال کی مسلسل جد و جہد کے بعد ملک ہندوستان کا آئین تیار کیا اسکے بعد دستورساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہرایک شق پر کهلی بحث ہوئ پھر 26 نومبر 1949 کو اسے قبول کرلیا گیا اور 26 جنوری 1950 میں اس نئے قانون کو نافذ کرکے اور دستور ہند کو اپنا مقدس آئین مان کر یوم جمہوریہ منایا گیا۔
اس آئین ہند میں چھ بنیادی حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا (۱) برابری کا حق (۲) آزادی کا حق (۳) استحصال کے خلاف حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) تعلیمی و ثقافتی حق (۶) آئینی چارہ جوئی کا حق۔
یہی وہ آئین ہے جو کہتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولرازم اور جمہوری ملک ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ ملک کا اپنا کوئی دھرم اور مذہب نہیں ہے، اسمیں تمام مذاہب اور اقوام کا یکساں احترام ہے، اس ملک میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، اور ملک کے ہر شہری کو امن، انصاف، تحفظ، حقوق اور مذہبی آزادی دی جائے گی۔
قارئین یہی وہ آئین ہے کہ جب
24 جنوری 1950 کو دستور ساز اسمبلی کے ایک مختصراجلاس میں تمام ارکان اسمبلی نے اس نئے دستور و آئین پر اپنا دستخط کر رہے تھے اس وقت مولانا حسرت موہانی نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے دستورکے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکها تھا جسمیں لکھا تھا کہ “یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اورتوسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزا دہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا ہے ۔
کون ہیں مولانا حسرت موہانی ؟
یہ وہی شخص ہیں جنہیں “مجنونِ آزادی” کہا جاتا ہے ۔
یہ وہی شخص ہیں کہ جب پہلی بار پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو اس وقت ایوان کی صدارت کرنے والے ڈاکٹر ایچ۔ سی۔ مکھرجی ( نائب صدر) نے مولانا حسرت موہانی کا تعارف کراتے ہوئے اور ارکان پارلیمنٹ کو یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ “مجھے امید ہے کہ ممبران پارلیمنٹ یہ بات نہ بھولے ہوں گے کہ یہ وہی مولانا حسرت موہانی ہیں جنہوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تھا، مجھے خوشی ہے کہ ایوان، مولانا حسرت موہانی کی بے مثال خدمات جو انہوں نے وطن کے لیے انجام دیے ہیں، اس کو نہیں بھولا۔”
اس بات پر پارلیمنٹ میں کافی دیر تک تالیوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی رہی اور پارلیمنٹ کی میزیں تھپتھپائی گئیں۔
مولانا حسرت موہانی نے دستور ساز اسمبلی میں عائلی قوانین جو مسلمانوں کی نسبت تھے اسکے تحفظ کے لئے بڑی جد و جہد کی تھی چناں چہ انہوں نے دستورسازی کے موقع پرتمام مذاہب کے پرسنل لا اور بالخصوص مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت نہ کرنے کے سلسلہ میں کہاتھا کہ ’’میں یہ بتادینا چاہاہوں گا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی یافرقہ پرست پارٹی کو کسی بھی گروپ کے پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں ہے، خصوصا میں مسلمانوں کی نسبت سے کہتاہوں کہ ان کے پرسنل لا کے تین بنیاد ی اصول ہیں جو مذہب زبان اور کلچر ہیں ، اس میں کچھ ایسے مسائل جن کو انسانوں نے نہیں بنایا ہے جیسے لاطلاق ،شادی ،اور وراثت کاقانون قرآن حکیم سے لیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اسی میں درج ہے ،اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کرسکتا ہے تو میں یہ کہوں گا اس کا انجام بے حد نقصان دہ ہوگا۔
میں اس ایوان میں آواز لگا کر کہہ رہاہوں کہ وہ مصیبت میں پھنس جائے گا اگر مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا،مسلمان کسی بھی صورت میں اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔
(حسرت موہانی اور انقلابِ آزادی:521)۔