وسیم اکرم تیاگی
چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں 24 فروری سے شروع ہوا کانگریس کا 85 واں قومی کنونشن 26 فروری کو ختم ہوگیا۔ اس کنونشن میں ملک بھر سے کانگریس کے لیڈران پہنچے، راہل گاندھی اور سونیا گاندھی بھی کنونشن میں شامل ہوئے۔ یہ کنونشن ایسے وقت میں ہوا جب کانگریس ممبر پارلیمنٹ راہل گاندھی نے 3600 کلو میٹر طویل ’بھارت جوڑو یاترا‘ ختم کرکے خود کو تپسوی کی شکل میں قائم کیا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کو لے کر دعویٰ کیاگیا تھا کہ یہ یاترا ملک کے وسائل پر ہوتے سرمایہ داروں کے قبضے، سماجی عدم مساوات اور فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف نکالی گئی تھی۔ اس یاترا کو لے کر سوال بھی اٹھے، لیکن ان سوالوں میں یہ سوال غائب ہی ہوگیا کہ ملک کی دوسری بڑی آبادی یعنی مسلمانوں کی حصہ داری اس یاترا میں کہاں تھیں؟ کانگریس کے چوٹی کی قیادت میں مسلم لیڈر کہاں تھے؟ کنیا کماری سے لے کر کشمیر تک پیدل چلے راہل گاندھی نے ہر ریاست میں الگ الگ علاقوں کی ہستیوں، سماجی کارکنان، کسانوں، جوانوں سے تو ملاقات کی، لیکن فرقہ ورانہ نفرت اور ماب لنچنگ کا شکار ہوئے مسلمانوں کے کنبوں سے راہل گاندھی مل ہی نہیں پائے۔ اس نہ ملنے کی وجہ راہل گاندھی کا پروٹوکال تھا یا پھر ان کی صلاح کار منڈلی میں شامل ’مشیرکاروں‘ کی نااہلی کہ وہ نفرت کے بازار میں کھلی محبت کی دکان میں ایسے ایک بھی مسلم شخص کو نہیں لاپائے جس کے اپنے نفرت کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان سوالوں کو اٹھایاگیا، لیکن بھارت جوڑو یاترا کے شور میں یہ سوال نقار خانہ میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئے۔
اب 85 ویں قومی کنونشن میں کانگریس نے جو کیا ہے اس نے کانگریس کے اندر موجود مسلم مخالفت ذہنیت کی پرتیں کھول دی ہیں۔ دراصل 26 فروری کو کانگریس کی طرف سے ایک اشتہارجاری کیاگیا، اس اشتہار میں کانگریس کے 137 سال کے سفر کے دوران ہوئے بڑے لیڈروں کی تصویریں تھیں، لیکن ان تصویر میں ایک بھی تصویر مسلم سماج سے تعلق رکھنے والے لیڈر کی نہیں تھی۔ حالانکہ اسی اشتہار میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی بھی تصویر تھی، جبکہ وہ کانگریس کے ممبر تک نہیں تھے۔ 137 سال پرانی کانگریس کے 8 صدر مسلم رہے ہیں، جن میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسرت موہانی، حکیم اجمل خان، بدرالدین طیب جی، رحمت اللہ ایم سیانی، نواب سید محمد بہادر، مولانا محمد علی جوہر، سید امام حسن اور مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر رہے، جس میں مولانا ابوالکلام آزاد 2 بار 1923 اور 1940 میں کانگریس کے صدر رہے، لیکن کانگریس کے 137 سال پورے ہونے کے سلسلے میں کانگریس کی طرف سے جاری اشتہار میں ان میں سے ایک بھی لیڈر کی تصویر کو اس اشتہار میں شامل نہیں کیاگیا۔ جب اس اشتہار کو لے کر تنازع ہوا اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے سوال کئے تو کانگریس کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے ٹوئٹ کرکے اسے ’ناقابل معافی غلطی‘بتایا۔ کیا یہ بھول ہی ہے؟ گزشتہ کچھ سالوں میں جس طرح مسلمانوں کو ’اچھوت‘ بنانے کی کوششیں تیز ہوئی ہیں، اسی کے نتیجے میں نام نہاد سیکولر جماعتوں نے بھی مسلمانوں سے دوری بنائی ہے۔ اس وقت کانگریس کی ٹاپ لیڈر شپ میں ڈھونڈنے سے بھی مسلمان نظر نہیں آتے؟ کیا یہ بھی بھول ہی ہے؟ ایک اور اہم بات کانگریس نے اپنا اشتہار ہندی اور انگیزی اخباروں کو ہی جاری کیا، جبکہ کانگریس کا روایتی ووٹر اردو نہ صرف پڑھتا ہے بلکہ اردو سے محبت بھی کرتا ہے۔ کیا وہی اشتہار اردو اخباروں کو نہیں دینا چاہئے تھا، یا یہ بھی بھول ہی ہے؟ ہاتھرس میں متاثر کنبہ سے ملنے کے لیے راہل اور پرینکا نے کتنی جدوجہد کی، یہ تو سبھی جانتے ہیں، لیکن ہریانہ میں گئورکشکوں کے ذریعہ زندہ جلا کر مار دیے گئے بھرت پور کے گھاٹ میکا گاؤں کے ناصر اور جنید کے کنبوں سے ملنا تو دور اس واقعہ پر ٹوئٹ کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔ کیایہ بھی بھول ہی ہے؟
ماضی میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کانگریس کے جتنے بھی صدر مسلم ہوئے ہیں، وہ سبھی آزادی سے پہلے ہوئے تھے۔ آزادی کے بعد کانگریس میں کسی بھی مسلم لیڈر کو پارٹی کی کمان نہیں سونپی گئی۔ حالانکہ آزٓدی کے بعد کانگریس نے کئی ریاستوں میں مسلم وزیر اعلیٰ ضرور بنائے، جس میں سید انور تیمور (آسام)، ایم او فاروق حسن ماریکر (پڈوچیری)، برکت اللہ خان (راجستھان)، عبد الرحمن انتولے (مہاراشٹر)، عبد الغفار (بہار)، غلام نبی آزاد (جموں وکشمیر) ان میں سے غلام نبی آزادکے علاوہ باقی سبھی لوگ دنیا سے جاچکے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کانگریس دفتر میں ان لوگوں کی جینتی تک بھی نہیں منائی جاتی۔ سیاست میں آئیڈیالوجی کا ہونا بہت ضروری ہے، لیکن جب ووٹ چھٹکنے کے ’ڈر‘ سے اپنے ہی آئیڈیالوجی کو درکنار کیا جانے لگے، تب سمجھئے کہ آپ نے لڑنے سے پہلے ہی ہار مان لی ہے۔
(مضمون نگار صحافت سے وابستہ ہیں)
محبت کی دکان سے مولانا آزاد بھی غائب! بھول یا سازش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS