اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ممبران پارلیمنٹ کو بہت سی ایسی مراعات اورحقوق حاصل ہیں جو عام شہریوںکو نہیں ہیں۔جن کا انہیں بعض امور میں فائدہ بھی پہنچتاہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ( ای ڈی ) نے منی لانڈرنگ کے معاملے میں شیوسیناکے ممبرپارلیمنٹ سنجے رائوت کوطلب کیا اور پوچھ گچھ کے بعد حراست میں لیا پھر نیشنل ہیرالڈ معاملے میں کانگریس کے ممبرپارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری کو ای ڈی نے طلب کیاتو دونوں پارٹیوں کے لیڈران نے یہ معاملہ زوروشور سے اٹھایاکہ پارلیمانی اجلاس کے دوران ای ڈی ممبران پارلیمنٹ کو کیسے طلب کرسکتا ہے؟ یا ان کو گرفتارکرسکتا ہے ؟ اس معاملہ کو عدالت میں تو نہیں اٹھایا گیا لیکن میڈیا کے سامنے اورپارلیمنٹ میں ضرور اٹھایا گیاجس کا جواب خود راجیہ سبھاکے چیئرمین ایم وینکیانائیڈو نے ایوان میں دیا۔ انہوں نے وہ غلط فہمی دورکردی ، جس کا حوالہ دیاجاتا ہے اورگزشتہ دنوں بھی دیا گیا۔راجیہ سبھاکے چیئرمین کا کہنا ہے کہ یہ خصوصی رعایت ضرور ہے کہ پارلیمانی اجلاس یا پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ شروع ہونے سے 40دن پہلے اور40دن بعد کسی بھی ممبر پارلیمنٹ کو گرفتارنہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ ضابطہ فوجداری معاملوں میں لاگو نہیں ہوتا۔اس ضابطہ سے ممبران پارلیمنٹ کو فوجداری معاملوں میں کوئی چھوٹ نہیں ملتی ہے۔مطلب صاف ہے کہ فوجداری معاملوں کی کارروائی میں ممبران پارلیمنٹ بھی عام شہریوں کی طرح ہوتے ہیں۔اس میں پارلیمانی اجلاس یا پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کا حوالہ دے کر ممبران بچ نہیں سکتے، انہیں کارروائی اورتحقیقاتی ایجنسیوں کی جانچ کا سامنا کرناپڑے گا اورانہیں گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔البتہ مسٹر نائیڈو نے ممبران پارلیمنٹ سے یہ بات ضرورکہی کہ اجلاس کا حوالہ دے کر وہ پیشی کے لیے اگلی تاریخ مانگ سکتے ہیں۔لیکن انہوں نے واضح کردیا کہ فوجداری اورمجرمانہ معاملوں میں ان کے اورعام شہری کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
راجیہ سبھاکے چیئرمین کے بیان سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ ممبران پارلیمنٹ کو جو بھی خصوصی مراعات یا حقوق حاصل ہیں،وہ مطلق نہیں ہیں کہ ہر جگہ انہیں خصوصی چھوٹ فراہم ہوگی اوروہ قانونی کارروائی سے آسانی سے بچ سکیں گے۔جس طرح ایجنسیاںمنتخب نمائندوں یا وزراتک پہنچنے کے لیے قانونی طریق کار کی پابندی کرتی ہیں، اسی طرح ممبرا ن پارلیمنٹ کو بھی قانون کی پابندی کرنی چاہیے۔انہیں خصوصی چھوٹ یا مراعات کی بات نہیں کرنی چاہیے۔اگر ہر معاملہ میں ہر جگہ خصوصی چھوٹ کی بات ہونے لگے تو پھر قانون اورضابطہ کا کیا مطلب رہ جائے گا؟ مجرمانہ پس منظررکھنے والوں کے سیاست میں داخلہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ سیاست ایسے لوگوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جاتی ہے،عام شہریوں کے مقابلہ میں ان کوبہت سی چھوٹ اور مراعات حاصل ہوجاتی ہیں اور اسی کا فائدہ سیاست میں اٹھایا جاتا ہے۔داغدارچہروں کی جتنی ضرورت سیاسی پارٹیوں کو ہوتی ہے، اتنی ہی مجرمانہ پس منظررکھنے والوں کو سیاسی پناہ کی ہوتی ہے۔ سیاست اور سیاسی ضرورت کے تحت ہی ہر کوئی اپنا اوراپنے لوگوں کا دفاع کرتا ہے اوردوسروں کو غلط ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔
ممبران پارلیمنٹ کو جہاں پارلیمانی فرائض کو انجام دینے کے لیے کچھ خصوصی مراعات حاصل ہیں۔وہیں قانونی کارروائی کے معاملہ میں انہیں کوئی چھوٹ اور رعایت نہیں دی گئی ہے تاکہ ان کے اندر یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ وہ پارلیمانی فرائض کی انجام دہی یا خصوصی مراعات کی آڑ میں قانونی کارروائی سے بچ سکتے ہیں۔ جب قانون اپنا کام کرتا ہے تو پھر اس سے بچنے کے راستے محدود ہوجاتے ہیں۔ شاید راجیہ سبھاکے چیئرمین یہی پیغام ممبران پارلیمنٹ کودینا چاہتے ہیںتاکہ ان کی غلط فہمی دور ہوجائے۔
[email protected]
ممبران پارلیمنٹ کیلئے خصوصی مراعات کا معاملہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS