عبد المبین ندوی
تقریباً ایک دہائی سے گودی میڈیا خواہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ غلط خبریں پلانٹ کرکے ملکی حالات کو بے حد خراب کردیا ہے۔ امن و امان غارت ہوگیا ہے۔ محبت کی جگہ نفرت کی وہ زہریلی بیچ کاشت کی گئی ہے جسکی فصل اب پک کر تیار ہوچکی ہے اور 2024 اسکے کاٹنے کا وقت ہے، چھوڑے موٹے آن لائن یوٹیوبر نے ہندو مسلم مسائل کو خوب اچھالا ہے جن سے ان کی ٹی آر پی بڑھی اور حکومت سے بڑے بڑے اشتہارات ملنے لگے۔اس لیے اس کا استعمال اب اور غلط ہونے لگا۔ دیپک شرما، اشوک وانکھیڑے وغیرہ خاص قابل ذکر ہیں جو صلہ کی خواہش اور ستائش کی تمنا کئے بغیر مثبت صحافت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں تعمیری صحافت کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے کہ وہ عصر جدید کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر حالات حاضرہ کا صحیح وغیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے عام خلق خدا کی صحیح رہنمائی و قیادت کا فریضہ انجام دے جس سے نفرت و انتشار کی دیواریں ٹوٹیں۔ استحصال کا ماحول ختم ہو، امن و راحت، سکون و محبت ، ہمدردی و غم خواری کا خوشگوار ماحول پیدا ہو، انسانی قدروں کا فروغ ہو، شفقت و نرمی کے ساتھ قلب و نظر کی تطہیر ہو، زخمی دلوں پر مرہم نہانی کے ساتھ حق و انصاف کی بات کو عام کیا جا سکے اور آج اس صحافت کو فروغ دینے کی شدید ضرورت ہے، جسے مولانا آزاد رحمہ اللہ نے ‘‘الہلال’’اور ‘‘البلاغ’’کے ذریعہ زندہ کیا تھا، جس نے پورے ملک میں صرف دو سال کی قلیل مدت میں انقلاب و بیداری کی روح پھونک دی تھی۔ اور مولانا ظفر علی خان نے ‘‘زمیندار’’ کے ذریعہ جس صحافت کو پروان چڑھایا، شورش کاشمیری نے ‘‘چٹان’’ کے ذریعہ، مولانا محمد علی جوہر نے ‘‘کامریڈ’’کے ذریعہ، سر سید نے ‘‘تہذیب الاخلاق’’کے ذریعہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری نے چالیس برس ہفتہ وار ‘‘اہلحدیث’’کے ذریعہ، مولانا شبلی اور آزاد نے ‘‘الندوہ’’ کے ذریعہ، مولانا عبدالحلیم شرر نے ‘‘دلگداز’’ کے ذریعہ ، مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے ‘‘سچ’’ اور ‘‘صدق’’ کے ذریعہ ، سید سلیمان ندوی اور ان کے جانشین مدیروں نے ‘‘معارف’’کے ذریعہ ، جس کا فیضان ہنوز جاری ہے اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے ‘‘بْرہان’’ کے ذریعہ اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوپالی ‘‘الاعتصام’’ کے ذریعہ اور عامر عثمانی نے ‘‘تجلی’’ کے ذریعہ جس تعمیری و مثبت صحافت کو فروغ دیا ہے، اسی کو آج دوبارہ زندہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مذکورہ رسائل و جرائد میں بیشتر مرحوم ہو چکے ہیں چند ایک ہیں جنکا فیضان جاری ہے مثلا معارف اعظم گڑھ الاعتصام لاہور اللہ ان کو سلامت رکھے اور مثبت صحافت کی آبیاری فرمائے جس سے دنیا میں امن و سکون قائم ہو۔
اس وقت جدید وسائل نشر و اشاعت وذرائع ابلاغ کے لیے کس قدر اہم ہیں اور اس کے کس قدر دور رس اثرات ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں۔کیونکہ یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں کہ جنہوں نے ہر دور میں قوم کا مزاج بنانے اور بگاڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور قوم کی اکثریت انہی چیزوں سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ آج ان وسائل کا دائرہ ماضی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ وسیع ہوا ہے۔یہ ہر لمحہ کی خبروں کو دوسروں تک بڑی تیزی سے منتقل کرتے ہیں۔جن سے وسیع و عریض دنیا کا دائرہ جدید ٹیکنالوجی کے عہد میں سمٹ کر ایک خاندان اور کنبہ کی طرح ہو گیا ہے۔جس طرح یہ ذرائع سریع الانتقال ہیں اسی طرح ان کے اثرات بھی زود اثر ہیں۔ ان وسائل میں اخبارات، جرائد،مجلات،ریڈیو،ٹیلی ویژن تو بہت مشہور اور عام ہیں۔ لیکن بعض ذرائع مثلا فون، فیکس،برقی تار، وائرلیس، پیجر، موبائل، سیٹلائٹ، مصنوعی سارچہ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ واٹس ایپ، ای میل، ایمو،یوٹوب، فیس بک اورایکس وغیرہ جدید آلات خاص ہیں جو اہم حالات میں استعمال ہوتے ہیں۔اسی طرح مختلف میٹنگیں اور کانفرنس بھی پیغام رسانی کا موثر ذریعہ ہیں۔ ان کے علاوہ ملکوں کے سفراء تنظیموں کی مندوب،اداروں کے نمائندے اپنے اپنے ملکوں و اداروں کے مفادات کے نہ صرف محافظ و ترجمان ہوتے ہیں بلکہ پیغام رسانی میں معتبر و موثر کردار ادا کرتے ہیں۔
اب چونکہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں یوروپ اور امریکہ سب سے آگے ہیں اس لیے لازمی طور پر فنِ صحافت میں بھی وہ سب سے آگے ہیں۔ اس لیے صحافت کی چھاپ اور اس کے اثرات بھی عالمی صحافت پر نمایاں ہیں۔ صحافت جس کو جرنلزم کہتے ہیں جو وقفے وقفے سے شائع ہونے والے اخبار و رسالہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر اب اس کا استعمال بہت وسیع ہو گیا ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے اس فن کو عروج کمال تک پہنچا دیا ہے۔ اب باقاعدہ خبروں کی فراہمی کے لیے مختلف ایجنسیاں قائم ہو گئی ہیں۔ جن کو اطلاعات کے نظام میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو مقامِ انسانی جسم میں قلب کو حاصل ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر پانچ معروف خبررساں ادارے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں جن کو نمایاں مقام حاصل ہے وہ ہیں:1۔رائٹرز (برطانیہ) 2۔ ایسوسی ایٹڈ پریس (امریکہ)۔ 3:۔یونائٹڈ پریس انٹرنیشنل یا یو پی آئی (امریکہ)۔ 4۔ اڑانس فرانس پریس یا اے ایف پی۔ 5۔تاس (روس) اسی طرح ہندوستان کی مشہور خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (P.T.I.) ہے۔
مذکورہ اداروں کی پوری دنیا میں 500 سے زائد دفاتر قائم ہیں۔ تقریباً 125 ملکوں میں اس کے کئی ہزار نمائندے اطلاعات فراہم کرنے پر متعین ہیں۔ ہر ادارہ روزانہ ڈیڑھ ملین یعنی 15 لاکھ سے زیادہ الفاظ ریڈیو، مواصلاتی سیاروں، ٹیلی فون و ہوائی سروس وغیرہ کے ذریعہ دنیا کے مختلف ملکوں کو نشریات کے ذریعہ ارسال کرتا ہے۔ اس وقت چار بڑی ایجنسیوں میں امریکہ کا C.N.N. ہے۔ جسے سابقہ خلیجی جنگ کی رپورٹنگ کے سارے حقوق دے دیئے گئے تھے۔ جس میں اس نے یکطرفہ رپورٹنگ کر کے صحافتی خیانت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ عراق جنگ میں الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل کو اس کی رپورٹنگ پر کافی شہرت و مقبولیت ملی ہے۔ اسی طرح نشریاتی اداروں میں بی بی سی لندن، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی، ریڈیو ماسکو، ریڈیو بیجنگ کی نشریات ساری دنیا میں بڑی دلچسپی سے سنی جاتی ہیںاور یہ سارے نشر کئی زبانوں میں اپنے پروگرام نشر کرتے ہیں۔ خاص طور پر بر صغیر کے لیے یہ سارے ادارے اردو میں نہایت اہتمام کے ساتھ اخبار اور حالات حاضرہ کے تعلق سے ‘‘سیربین’’، ‘‘شبنامہ’’،‘‘جہاں نما’’اور دیگر معلوماتی فیچرز پیش کرتے رہتے ہیں۔خاص کر الیکشن کے دنوں میں تو لگتا ہے کہ جیسے الیکشن یہی لڑتے ہیں۔ عوام کا رخ متعین کرنے میں جو خبریں بی بی سی نشر کر دیتا ہے۔(جسے میں تقریباً4 برسوں سے سن رہا ہوں)وہ بہت بعد میں ملکی ریڈیو سے نشر ہوتے ہیں یا پھر سرے سے نشر ہی نہیں ہوتے۔ مذکورہ نشریاتی اداروں کے نمائندے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اہم خبروں پر نگاہ رکھتے ہیں اور خصوصی مراسلات بھیجتے ہیں۔ ان میں جہاں کچھ افادی پہلو ہے وہیں اپنی فکر و ثقافت اور کلچر کی بھی ترجمانی کرتے ہیں جس سے مغربی تصور کو مشرق کے سامنے پیش کر کے اپنے مختلف سیاسی،اقتصادی، فکری و سماجی فوائد حاصل کرتے ہیں اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں جنگ چھڑی ہوئی ہے خاص کر اسرائیل اور فلسطین کی جنگ جو 75 برسوں سے جاری ہے اور امریکہ کی حمایت سے ظالم و غاصب اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے انکی زندگی کو جہنم زار بنا رکھا ہے، جہاں بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر راکٹ اور بم برسائے جا رہے ہیں۔ جس کی متعصب میڈیا نے یکطرفہ رپورٹنگ کرکے حالات کو زیادہ خطرناک بنا دیا ہے، جبکہ اس مسئلہ پر 56 اسلامی ممالک کی ان میں شرمناک بے حسی و سرد مہری کا فی افسوسناک ہے۔ امریکی نطفہ سے پیدا ظالم اسرائیل کے سفاخانہ حرکتوں سے پوری دنیا شرمسار ہے جبکہ انصاف پسند دنیا اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ آٹھ ارب انسانوں کی آنکھ میں اسرائیل دھول جھونک کر ایک پورے ملک و قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اسکی نسل کشی پر آمادہ ہے۔ امریکہ و انگلینڈ جیسے سپر پاور اسکی حمایت میں شانہ بہ شانہ گھڑے ہیں اور حماس کی آڑے کر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ فلسطینی اپنی زمین اور جان بچانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں ۔ مذکورہ جنگ کی بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ عالمی جنگ توپوں کی نہیں بلکہ اصل صحافت اور میڈیا کے ذریعہ لڑی جا رہی ہے۔ جس کی عمومیت اور وسعت اور دور رس گہرے اثرات بم و بندوق سے کہیں خطرناک و ہلاکت خیز ہیں۔ ایک تو ادب و تعلیم کے تیزاب میں قومی فکر کو پگھلایا جا رہا ہے تو دوسری طرف رہی سہی کسر اس فلمی صنعت نے پوری کردی جس کی مکمل ڈور دوڑ یہودی لابی کے قبضے میں ہے اور جو بلا توقف کروڑوں ڈالر کے صرفہ سے ایسی حیا سوز و عریاں فلمیں بنا رہا ہے جو ادب،اخلاق اور انسانیت کو اپنے جنگی شعلوں میں جلا کر خاکستر کر رہا ہے اور یہ براہ راست ڈش انٹینا کے ذریعہ نہ صرف کسی ایک طبقہ کو بلکہ ہر طبقہ کے گھروں میں دن دہاڑے گھس کر حملہ کر رہا ہے۔ مغرب کی یہ جنگ پہلے علم و ادب کے راستے لڑی جا رہی تھی۔ اور اب یہ وسیع پردہ ٔسیمیں و ٹیلی ویژن کے ذریعہ لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ ہو کر جامہ انسانیت کو تار تار کر رہی ہے۔ باپ، بیٹا، ماں، بہن، بیٹی، بیوی سبھی ایک ساتھ بغیر کسی کراہیت، شرم و عار کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسے تفریح طبع کا خوشنما نام دے کرغیرت و حمیت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اس طرح تعمیری صحافت کو جن پہلوؤں پر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے اور مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہ مختلف الجہات محاذ ہیں اور جن پر تمام لوگوں کو توجہ دینے کی ضرورت تاکہ معاشرہ بہترین بن سکے ان میں داخلی، خارجی بھی، فکری، اجتماعی، ادبی، تعلیمی، اخلاقی ، و اقتصادی ، سیاسی بھی اور معاشرتی وغیرہ شامل ہیں۔
ذرائع ابلاغ اور عصر حاضر کے چیلنجز: عبد المبین ندوی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS