کئی ریاستوں میں تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں

0

لوک سبھا انتخابات کے بعد اب کئی ریاستوں میں مرکزی سیاست کا اثر نظرآنے لگاہے ۔ مہاراشٹر، بہار اور کرناٹک میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا اشارہ ملنے لگا ہے اور اس کی شروعات بہار سے ہوئی ہے اور اب نتیش کمار کے خلاف بی جے پی میں سر اٹھنے لگے ہیں۔ بہار میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے میں سابق ایم پی اشونی چوبے نے اسمبلی انتخابات اپنی پارٹی کے لیڈر کی قیادت میں لڑنے اور امپورٹیڈ قیادت کو نظرانداز کرنے کی صلاح دی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بہار بی جے پی میں نتیش کمار کو لے کر مرکزی قیادت سے الگ رائے سامنے آئی ہے۔ ریاستی بی جے پی کے صدر بھی پارٹی کی خود کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی بات کررہے ہیں ۔ جبکہ نتیش کمار اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ہی قبل از وقت الیکشن کرانے کی وکالت کررہے ہیں۔
لوک سبھا الیکشن میں این ڈی اے محاذ میں شامل پارٹیوں نے کامیابی کو برقرار رکھا اور اس کو 40میں سے 30سیٹیں ملیں۔ بی جے پی اور جنتا دل یو کو بارہ بارہ سیٹیں ملی ہیں جبکہ جیتن رام مانجھی کو ایک اور پانچ سیٹیں رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی کو ملیں۔ ایک سیٹ آزادانہ امیدوار اور انڈیا اتحاد کو 9سیٹیں ملیں۔
ہندوستان کی سیاست کی سمجھ رکھنے والے کسی بھی باشعور انسان کو یقینا اس بات کی توقع نہیں ہوگی کہ اتنی شدید انتخابی مہم کے بعد متوقع سیاسی صورت حال میں جس میں لوک سبھا کے انتخاب لڑے گئے تھے ، کے بعد سیاسی استحکام آجائے گا ۔ اس لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں اتھل پتھل کا ماحول نہ صرف مرکز میں برقرا رہے گا بلکہ کئی ریاستی سرکاریں اس کی زد میں آسکتی ہیں۔ اس میں ہریانہ، کرناٹک اور بہار قابل ذکر ہیں۔
لوک سبھا کے انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ غیر متوقع تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ کانگریس پارٹی جو چند ماہ پہلے اسمبلی کے انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لوک سبھا کے الیکشن میں اس کی شاندار کامیابی ہوگی۔ مگر ہوا اس سے الٹ جنتا دل سیکولر کے اعلیٰ ترین لیڈروں کے سیکس اسکینڈل میں نام آنے کے باوجود بی جے پی اور جنتا دل سیکولر نے کانگریس پارٹی کو زیادہ سیٹوں پرکامیابی حاصل نہیں کرنے دی۔
بی جے پی نے کل 28 سیٹوں میں سے 19اور جنتا دل (ایس)نے دو جبکہ کانگریس صرف 9سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ اس کا نتیجہ بہر حال نظرآرہا ہے۔ کانگریس پارٹی کو توقع تھی کہ اگر کرناٹک میں بھی اس کو اچھی سیٹیں مل گئی تو اس کو مرکز میں انڈیا اتحاد کی حکومت کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے ۔ بہر حال کرناٹک کی ریاستی حکومت پر بھی اس کا اثر صاف دکھائی دے رہا ہے اور پارٹی کے مختلف دھڑوں میں وزارت اعلیٰ کو لے کر رسہ کشی کو اس وقت شہہ ملی جب گزشتہ وکا لیگا سماج کے ایک اہم مذہبی لیڈر چندر شیکھر سوامی جی نے ریاست کی سیاسی صورت حال اور حکومت کی قیادت پر ایسا بیان دے دیا جس کا ارتعاش دور تک محسو س کیا جائے گا۔ خالص مذہبی پروگرام میں انہوںنے کانگریس کے ریاستی صدر اور سینئر لیڈر ڈی کے شیو کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا شوشہ چھوڑ دیا۔ انہوںنے یہ بیان اس وقت دیا جب اس مذہبی تقریب میں خود وزیراعلیٰ سد رمیا بھی موجود تھے۔ اس بیان کے ریاستی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سوامی جی نے انتہائی سادگی کے ساتھ کہہ دیا کہ سد رمیا اس سے پہلے بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور اب موقع ڈی کے شیو کمارکو ملنا چاہیے۔ کانگریس پارٹی کے اندر ڈی کے شیوکمار کا رتبہ کافی اہم ہے اور کانگریس کی مرکزی قیادت ڈی کے شیو کمار کو ان کی انتظامی سیاست کے فن کی پذیرائی ہوئی ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی مرتبہ پر کانگریس کی سرکاروں کو ٹوٹنے سے بچا چکے ہیں۔
پچھلے دنوں ہماچل پردیش میں کانگریس میں اختلافات کی وجہ سے وہاں کی نومولود سرکار کے زوال کے امکانات ظاہر کیے جار ہے تھے، مگر ڈی کے شیو کمار نے ہماچل پہنچ کر کانگریس کو کرکری سے بچا لیا۔ اس سے قبل راجستھان کے معاملے میں بھی وہ بی جے پی کی تخریبی کوششوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔ زبردست سیاسی جوڑ توڑ کی صلاحیتو ںکا مظاہر کرچکے ہیں۔ ڈی کے شیو کمار بڑے سرمایہ دار ہیں ۔ تمام طبقات میں ان کو عزت وقار حاصل ہے۔ کرناٹک کی کانگریس ان کی قیادت میں دوبارہ برسراقتدار آئی تو اس کے پس پشت ڈی کے شیو کمار کی صلاحیتیں بھی کارفرما تھیں۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ڈی کے شیوکمار کی قیادت والی کرناٹک کانگریس پارلیمانی انتخابات میں خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں کرپائی اور مرکزی قیادت نے ان کو نظرانداز کرنا شروع کردیا ہے۔ مگر کرناٹک کے ایک اہم سیاسی طور پر سرگرم اور بااثر طبقے کے مکھیا کے منھ سے ڈی کے شیو کمار کی وازارت اعلیٰ کے لیے وکالت کرنا حالات میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS