ارون کمار
مزدوروں کا جلد سے جلد ڈاٹابیس تیار کرنے اور ان تک سماجی فلاحی اسکیموں و دیگر ضرورتوں کی پہنچ یقینی بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد آخرکار مرکزی حکومت نے ای-شرم پورٹل کی شروعات کردی۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے 38کروڑ مزدوروں کو فائدہ ہوگا۔ اس کے تحت رجسٹرڈ ورکروں کو ای-شرم کارڈ دیا جائے گا، جو پورے ملک میں چلے (Valid) گا اور اس سے غیرمنظم کام کاجی طبقہ(unorganized workers) کو کام ملنے میں سہولت ہوگی۔
پہلی نظر میں تو یہ ایک کارگر پہل لگتی ہے، لیکن اصلیت میں اس میں کئی پیچ ہیں۔ سب سے پہلے تو رجسٹریشن کا عمل ہی کافی الجھا ہوا ہے۔ اس میں مزدور اپنا نام تبھی درج کراسکیں گے، جب ان کے پاس موبائل نمبر اور آدھار کارڈ ہوگا۔ بیشک حکومت کی طرف سے جاری ٹول فری نمبر سے انہیں مدد ملے گی، لیکن زیادہ تر مزدور اتنے لائق نہیں ہیں کہ اپنا نام یہاں درج کراسکیں۔ پھر، یہ گارنٹی بھی نہیں ہے کہ موبائل اور آدھار سب مزدوروں کے پاس ہوں۔ اچھا ہوتا کہ غیرمنظم شعبہ میں کام کرنے والے غیرسرکاری اداروں یا مزدور تنظیموں کو رجسٹریشن کرانے کی ذمہ داری دی جاتی۔ ان کی مدد سے مزدور اپنا نام اس میں آسانی سے درج کراسکتے تھے۔ ای-شرم پورٹل پر یہ بھی معلومات نہیں ہے کہ ورکروں کو کن کن اسکیموں سے منسلک کیا جائے گا۔ غیرمنظم شعبہ کریڈٹ(سرمایہ)، تکنیک اور مارکیٹنگ کے مسئلہ سے نبردآزما ہے۔ جس طرح سے بڑی بڑی کمپنیوں کو کام کرنے کے لیے ’ورکنگ کیپٹل‘ درکار ہوتی ہے، اسی طرح غیرمنظم شعبہ کے کام کاجی طبقہ کو بھی اپنا کام دھندہ شروع کرنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ عام طور پر اپنی بچت کو ہی ورکنگ کیپٹل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن کورونا کی دو-دو لہروں نے ان کی سبھی جمع پونجی ختم کردی ہوگی۔ بلاشبہ مرکزی حکومت نے ریہڑھی-پٹری والوں کے لیے بطور قرض10-10ہزار روپے کا نظم کیا تھا، لیکن یہ اسکیم لاک ڈاؤن-1.0کو دیکھ کر جاری کی گئی تھی، جب کہ کورونا کی دوسری لہر کہیں زیادہ مہلک رہی۔ ظاہر ہے، یہ رقم بھی اب شاید ہی ان کے اکاؤنٹ میں باقی رہی ہو۔
غیرمنظم شعبہ کا کام کاجی طبقہ مقابلتاً کم ہنرمند ہے۔ ان کی ہنرمندی میں اضافہ کی طویل مدتی اسکیم تو بننی ہی چاہیے، پورٹل پر یہ بھی اطلاع ہونی چاہیے کہ وہ کس کام میں ہنرمند ہیں۔ ای-شرم پورٹل پر بلڈ گروپ تو پوچھا گیا ہے، لیکن کام کے بارے میں مناسب معلومات طلب نہیں کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے حکومت کی یہ پہل تو اچھی ہے، لیکن اب بھی اس میں کافی اصلاح کیے جانے کی ضرورت ہے۔
تازہ پہل میں یہ بات اچھی ہے کہ اس میں مزدوروں کو ایک منفرد نمبر(unique number) دیا جائے گا۔ اس سے یہ معلومات حاصل ہوسکیں گی کہ ملک کی کس ریاست میں کتنے سارے لوگ غیرمنظم شعبہ میں کام کرتے ہیں اور روزگار کے متلاشی ہیں۔ مگر یہ کام بھی تبھی ہوگا، جب زیادہ سے زیادہ مزدور اپنا رجسٹریشن کراسکیں۔ اس کے لیے رجسٹریشن کے عمل کو زیادہ آسان بنانا ہوگا اور آدھار کارڈ کے بجائے شناخت کے دوسرے متبادل(جیسے ووٹر آئی کارڈ، راشن کارڈ)کو بھی اس زمرے میں شامل کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ زرعی شعبہ کے مزدوروں کو بھی اس میں جوڑنا چاہیے۔ ابھی ملک میں تقریباً 6کروڑ مائیکرو کمپنیاں ہیں۔2011کی مردم شماری کے مطابق کل مزدوروں (لیبرفورس) میں 45فیصد حصہ داری غیرزرعی شعبہ کے مزدوروں کی ہے۔ مگر وبا کے بعد تقریباً 44فیصد حصہ کاشتکار مزدوروں کا بھی ہوگیا ہے۔ ان کو بھی اگر اس میں جوڑسکیں تو ایک بڑی حصولیابی حکومت کے حصہ میں آسکتی ہے۔
ابھی دقت یہ ہے کہ بازار میں ڈیمانڈ بہت کم ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور کورونا نے جس طرح سے اثر ڈالا ہے، اس کی سب سے بڑی مار غیرمنظم شعبے کے روزگاروں پر پڑی ہے۔ جب لوگوں کی آمدنی کم ہوگئی ہے تب ڈیمانڈ میں اضافہ کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ اتنا ہی نہیں، حکومت منظم شعبوں کو بڑھاوا دیتی رہی ہے، جس سے غیرمنظم شعبوں کی ڈیمانڈ بھی منظم شعبوں میں چلی گئی۔ جیسے جی ایس ٹی سے غیرمنظم شعبہ کو باہر رکھنا ایک اچھا قدم تھا، لیکن اس کا برا اثر یہ ہوا ہے کہ غیرمنظم شعبہ کو اِن پٹ کریڈیٹ نہیں مل رہا۔ نتیجتاً، اس کا مال مہنگا ہوگیا ہے، جب کہ اِن پٹ کریڈٹ پاکر منظم شعبہ صارفین کو اپنی جانب راغب کررہا ہے۔ پریسٹیج پریشر کوکر کے چیئرمین ٹی ٹی جگن ناتھن نے 2018میں کہا تھا کہ پانچ منظم اور 23غیرمنظم شعبو ں کی کمپنیوں سمیت ملک میں پریشر کوکر کی کل 30یونٹیں ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ ہماری ڈیمانڈ میں 24فیصد اضافہ ہوگیا ہے، کیوں کہ غیرمنظم شعبوں کی ڈیمانڈ ہماری طرف آرہی ہے۔ کچھ یہی حال آج ہے۔ غیرمنظم شعبوں میں ڈیمانڈ میں اضافہ تبھی ہوگا، جب مزدوروں کے پاس پیسے ہوں گے۔ لہٰذا ای-شرم پورٹل پر رجسٹرڈ کام کاجی طبقہ کے اکاؤنٹ میں پیسے پہنچانے کا انتظام بھی ہونا چاہیے، تاکہ ان کی خرچ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوسکے۔
ایک راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ مقامی سطح پر کو-آپریٹیو بنائے جائیں، تاکہ وہ غیرمنظم شعبہ کے پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کریں اور کام کاجی طبقہ کو تکنیک مہیا کرائیں۔ اگر ایسا ہوسکا، تو اس پورٹل سے ہم کافی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ حالاں کہ اس کے لیے کچھ انتظامی مسائل کو دور کرنا ہوگا۔ ممکن ہو، تو جن دھن کھاتے کو یہاں سے جوڑ دینا چاہیے اور مزدوروں کا پیسہ اسی اکاؤنٹ میں جمع کرنا چاہیے۔
یہاں دیہی روزگار گارنٹی اسکیم(Rural Employment Guarantee Scheme) بھی کافی کام آسکتی ہے۔ گزشتہ سال اس کے لیے 1.10لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جو ناکافی تھے۔ ریزرو بینک کی رپورٹ کے مطابق اس اسکیم سے مزدوروں کو سال میں اوسطاً 50دنوں کا کام ملا، جب کہ ضرورت 365دن میں کم سے کم 200دن کام ملنے کی ہے۔ اس لیے اس مد میں 3.5لاکھ کروڑ روپے تک مختص کیے جانے چاہیے تھے اور کام کاجی طبقہ کی مزدوری میں اضافہ بھی کرنا چاہیے تھا۔ چوں کہ اب بھی بہت سارے مزدور گاؤں سے شہر کی جانب نہیں لوٹے ہیں، اس لیے 1.5لاکھ کروڑ روپے تو فوراً اس اسکیم میں ڈالے جانے چاہیے۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو اسے ای-شرم پورٹل پر رجسٹرڈ مزدوروں کو الگ سے پیسہ نہیں دینے پڑیں گے۔ وہ چاہے تو کام کے حساب سے مزدوروں کو ادائیگی کرسکتی ہے۔ اسی طرح کی کوشش شہری علاقوں میں بھی کی جاسکتی ہے۔ شہری روزگار اسکیم موجودہ وقت کی بہت بڑی ڈیمانڈ ہے۔
غیرمنظم شعبہ کا کام کاجی طبقہ مقابلتاً کم ہنرمند ہے۔ ان کی ہنرمندی میں اضافہ کی طویل مدتی اسکیم تو بننی ہی چاہیے، پورٹل پر یہ بھی اطلاع ہونی چاہیے کہ وہ کس کام میں ہنرمند ہیں۔ ای-شرم پورٹل پر بلڈ گروپ تو پوچھا گیا ہے، لیکن کام کے بارے میں مناسب معلومات طلب نہیں کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے حکومت کی یہ پہل تو اچھی ہے، لیکن اب بھی اس میں کافی اصلاح کیے جانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)