بقلم: امام علی فلاحی۔
ایم۔اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
رواں سال 2023 جنوری میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے تقریباً 1900 طلباء کا این ایس پی (نیشنل اسکولرشپ پورٹل) خارج کر دیا گیا ہے، جس کی بنا پر مانو کے طلباء پریشانی کے عالم سے دو چار ہیں، اسی بنا پر انہوں نے مانو ایڈمنسٹریشن کے سامنے اپنا احتجاج درج کرا کے این ایس پی کو ریجیکٹ ہونے کی وجہ دریافت کی اور جلد از جلد اسے بحال کرنے کی مانگ کی۔
طلباء کا یہ کہنا ہے کہ تقریباً سارے ہی طلباء کا این ایس پی فارم ڈسٹرکٹ لیول سے پاس ہو گیا تھا لیکن اسکے آگے کے پروسیز میں مانو کے سارے ہی طلباء کے این ایس پی فارم کو رد کر دیا گیا۔
لیکن یہاں پر طلباء اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تمام طلباء کو جو این ایس پی ریورٹ کا میسج آیا اسمیں بہار کے ایک ہی نوڈل آفیسر کا نام بتا جا رہا ہے کہ اسی آفیسر نے اسے ریورٹ کیا ہے۔
جبکہ کچھ طلباء کا تعلق ریاست اترپردیش سے ہے تو کسی کا تعلق مہاراشٹرا اور بنگال سے ہے پھر کس وجہ ان سارے ہی طلباء کا این ایس پی ریورٹ بہار کے ایک ہی نوڈل آفیسر نے کیا ہے۔
اسی سلسلے میں مانو کے طلباء نے ایک ٹویٹر ٹرینڈ MANUUdemandsNSP#
کے ساتھ کیا اور لکھا کہ ہم مانو کے طلباء بحیثیت اسٹوڈنٹس اسکالرشپ رد کرنے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ اقلیتی طلباء پر براہ راست حملہ ہے۔
طلباء نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن صاحب کو بھی ایک ٹویٹ میں ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ ہمارے محافظ اور ہمارے گارجین ہیں، آپ بحیثیت شیخ الجامعہ اس مسئلے کو حل کرا سکتے ہیں، اسی لئے آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ آپ اپنے یونیورسٹی کے ذہین طلباء کے حق میں اس معاملے کو حل کرانے کی کوشش کریں۔
اسی کے پیش نظر مانو طلباء یونین نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن صاحب سے آمنے سامنے بات بھی کی اور اس معاملے پر گذارش کی کہ وہ مانو کے طلباء کا این ایس پی جلد از جلد بحال کرا دیں۔
اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلباء پریشانی عالم میں ڈوبے ہوئے ہیں کیونکہ این ایس پی کا وقت بھی گذر چکا ہے، اب کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اسکولرشپ ملے یا نہ ملے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس سال مانو کے تقریباً انیس سو طلباء کا جو اسکولرشپ روک لیا گیا ہے ان سارے پیسوں پر اب حق کس کا ہوگا؟ اب کون ان پیسوں کو استعمال کرے گا ؟
اگر سرکار ان پیسوں کو استعمال کرتی ہے تو یہ اقلیتی طلباء کے ساتھ کھلے طور پر نا انصافی ہوگی کیونکہ وہ سارے پیسے تو مانو طلباء ہی کے ہیں، ان پر حق صرف اور صرف مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طالبعلموں کا ہی ہے۔
یاد رہے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اکثر وہ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنکا شمار اقلیتی طبقے سے ہوتا ہے، یہاں کثیر تعداد میں غریب گھرانے کے بچے ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انکے لئے اسکولرشپ بہت معنی رکھتی ہے، بارہ، پندرہ ہزار روپے میں طلباء اپنی بہت سی ضروریات پوری کرسکتے ہیں، اسی پندرہ ہزار روپے میں طلباء کی زندگی بن بھی سکتی ہے اور بگڑ بھی سکتی ہے، کیونکہ بہت سے طلباء ایسے بھی ہیں جو انہیں پیسوں سے اپنا سمسٹر فیس ادا کرتے ہیں، اگر اب کی بار یہ پیسے نہ ملے تو شاید کئی طلباء سمسٹر فیس ادا نہ کر پانے کی وجہ سے اپنا داخلہ بھی کینسل کرادیں۔
اب اگر کوئی طالبعلم اپنا اڈمیشن کینسل کراتا ہے یا تعلیم حاصل کرنے میں اسے اگر کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے اسکا ذمہ دار سرکار ہی ہوگی ۔
اس لئے اب اقلیتی منسٹری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جلد از جلد اس مسئلے کو حل کرے، ورنہ نہ جانے کتنے ملک کے ہونہار طلبہ جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں وہ اپنی تعلیم سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ملک کی ترقی میں مزید دیری ہو جائے ۔