منموہن سنگھ: ایک عہد کا خاتمہ

0

ڈاکٹر منموہن سنگھ ہندوستان کے تیرہویں وزیر اعظم اور عظیم ماہر اقتصادیات، 26 دسمبر 2024 کو دہلی کے ایمس اسپتال میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 92 سال تھی اور وہ طویل عرصے سے بیماریوں کا شکار تھے۔ ان کی وفات نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے سیاسی اور معاشی حلقوں کو گہرے رنج و غم میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ ایک عہد کا خاتمہ ہے، جس نے ہندوستان کی سیاسی اور معاشی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زندگی کا بیشتر حصہ عوامی خدمت، معاشی اصلاحات اور ہندوستان کی عالمی شناخت کو مضبوط بنانے میں صرف ہوا۔ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں، دیانت داری اور سادگی نے انہیں ایک ایسا رہنما بنایا جس کی مثال سیاست میں کم ہی ملتی ہے۔ ان کی وفات نے ہندوستان کو ایک عظیم رہنما سے محروم کر دیا ہے، لیکن ان کی خدمات اور قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو گاہ، پاکستان کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان ہندوستان منتقل ہو گیا اور یہاں انہوں نے اپنی تعلیمی قابلیت کے ذریعے کامیابی کی منازل طے کیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے عالمی سطح پر معاشیات کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ ان کی دانشورانہ صلاحیتوں نے انہیں نہ صرف ایک ممتاز ماہر اقتصادیات بنایا بلکہ سیاست کے میدان میں بھی ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ 1991 میں انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اس وقت کے وزیراعظم نرسمہا راؤ کے تحت ملک کی معاشی بحالی کیلئے اہم اقدامات کئے، جنہوں نے ہندوستان کی معیشت کو عالمی سطح پر ایک مستحکم مقام دیا۔ ان اصلاحات نے ہندوستان کو معاشی بحران سے نکال کر آزاد منڈی کی معیشت کے قیام کے ذریعے ایک نئی سمت دی۔2004 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا اور یوپی اے حکومت کے قیام کے بعد انہوں نے ملک میں معاشی ترقی، سماجی انصاف اور بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں نمایاں پیش رفت کی۔ امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدہ، دیہی روزگار کی ضمانت اسکیم اور تعلیم کے فروغ کیلئے آر ٹی ای جیسے اقدامات ان کی دوراندیشی اور عوامی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کئے گئے۔ ان کی قیادت میں ہندوستان نے عالمی سطح پر اپنی شناخت کو مزید مضبوط کیا اور وہ ہمیشہ مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیتے تھے۔ چین، امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ان کی حکمت عملی کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔

ڈاکٹر سنگھ کی شخصیت کی ایک بڑی خصوصیت ان کی شرافت اور دیانت داری تھی، جو سیاست کے گلیاروں میں نایاب سمجھی جاتی ہے۔ ان کے دور حکومت میں بعض تنازعات اور مسائل بھی سامنے آئے، جیسے بدعنوانی کے الزامات اور معاشی سست روی کے معاملات، مگر ان تمام چیلنجز کے باوجود ان کی شخصیت اور خدمات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ان کی زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایک حقیقی رہنما کی پہچان اس کی نیت، کوشش اور طویل المدتی اثرات سے ہوتی ہے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کا انتقال ایک عظیم شخص کی وفات ہے، جو نہ صرف ایک سیاستدان، بلکہ ایک مصلح، ایک معلم اور رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر دیا۔ ان کی سادگی، علمیت اور خدمت کے جذبے نے انہیں عوام کے دلوں میں ایک خاص مقام دلایا۔ ان کی وفات پر ملک کے مختلف حصوں سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے اور تمام سیاسی جماعتوں، دانشوروں اور عوام نے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کی زندگی اور کارنامے آنے والی نسلوں کے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اردو زبان سے محبت بھی ایک اہم پہلو تھا۔ وہ نہ صرف اردو کے شیدائی تھے، بلکہ انہیں ہزاروں اشعار بھی یاد تھے جن کا وہ اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریریں فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیںاور وہ اردو ادب کے گہرے مداح تھے۔ ایک موقع پر پارلیمنٹ میں سشما سوراج نے انہیں ایک شعر پڑھ کر چیلنج کیا تھا، جس پر ڈاکٹر سنگھ نے علامہ اقبال کا ایک اور خوبصورت شعر پڑھا تھا:

مانا کہ تری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ

یہ ان کی اردو سے محبت اور ادب کی گہری سمجھ کا مظہر تھا، جو ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ ان کے انتقال نے نہ صرف ہندوستان بلکہ اردو ادب کی دنیا کو بھی ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی آخری رسومات 28 دسمبر 2024 کو دہلی کے راج گھاٹ پر ادا کی جائیں گی، جہاں انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔ ان کے انتقال کے بعد کانگریس پارٹی نے اپنے تمام سرکاری پروگراموں کو منسوخ کر دیا ہے اور پارٹی پرچم سرنگوں رہے گا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زندگی کا ہر پہلو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ قیادت کا اصل مطلب عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی کیلئے خود کو وقف کرنا ہے۔ ان کی یاد ہمیشہ ایک ایسے رہنما کے طور پر رہے گی جس نے اپنی دیانت داری، محنت اور علم کے ذریعے ہندوستان کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا۔ ان کی وفات نے ملک کو ایک گہری خلا میں ڈال دیا ہے،لیکن ان کی خدمات اور قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔یہ ایک عہد کا خاتمہ ہے، لیکن ان کی وراثت اور خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS