منی پور میں آتش و آہن کی برسات تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ مہینہ سے جاری فساد اور شورش اب تک سیکڑوں لوگوں کو نگل چکی ، ہزاروں زخمی سسک رہے ہیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔فساد کی آگ بغیر کسی تمیز کے بیمار ، بوڑھے، مرد ، عورت ، بچے سبھی کو نگل رہی ہے۔ چند دنوں قبل ایک ایمبولنس میں ماں بیٹی کو زندہ جلا دیاگیا تھا اور سیکڑوں گھروں کو آگ لگادی گئی تھی تو کل منگل کی رات ایک تازہ واردات میں11افرادہلاک ہوگئے ہیں۔ خبر ہے کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے منگل کی رات دیر گئے کھاملوک گاؤں پر حملہ کیا اور گاؤں والوں پر خودکار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے 9 افراد موقع پر ہی ہلاک اور 25 دیگر زخمی ہو گئے۔بعد ازاں دو زخمی اسپتال میں دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ کھاملوک گاؤں میتئی قبائل کے زیر اثر امپھال مشرقی ضلع اور قبائلی اکثریتی کانگ پوکپی ضلع کی سرحد پر ہے۔متعدد افراد کی ہلاکت کے بعد اب کھاملوک میں نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے اور دونوں اضلاع میں کرفیو میں نرمی واپس لے لی گئی ہے۔ 3 مئی سے جاری اس تشدد میں اب تک حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس چھوٹی ریاست میں50,698 لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں اور 349 ریلیف کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود آئے روز نئے حملے اور ہلاکتیں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
بظاہر اس تشدد کا آغاز ایک عدالتی فیصلہ کے بعد ہوا تھا جس میں میتئی قبائل کو کئی ایک حقوق دیے گئے اوراس کے بعد کوکی زو قبائل کے زیرا ثرپہاڑیوں پر بھی میتئی قبائل کا استحقاق بن گیا۔ اس فیصلہ کے بعد سے ہی دونوں قبائل یا برادریوں کے درمیان بداعتمادی شروع ہوئی اور گزرنے والے چالیس دنوں میں یہ بداعتمادی تمام حدیں پار کرچکی ہے اور دونوں ہی قبائل کسی سمجھوتے کیلئے تیار نہیں۔
منی پور ، شمال مشرقی کی دوسری ریاستوں کی طرح مختلف نسلی قبائل اور گروہوں کا مسکن رہا ہے۔ قبائلی جھگڑے اور تنازعات کے باوجود یہاں صورتحال کی سنگینی کاتسلسل نہیں رہا ہے لیکن2017میں اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے کم سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود جب جوڑ توڑ کے ذریعے بی جے پی کی حکومت بنی تب سے یہاں شورش نے بھی پروان چڑھنا شروع کردیا۔ بی جے پی نے یہاں کی غیر عیسائی میتئی برادریوں کو ہندوتوکے نعرے سے متاثر کیا۔میتئی برادری کے نوجوانوں میں یہ زہر بویاگیا کہ ناگا، کوکی زو اور دیگر عیسائی قبائل ان کے اپنے مذہب اور ثقافت کیلئے خطرہ ہیں۔اس کے بعد بجرنگ دل جیسی جارحانہ تنظیموں کومنی پور میں کھل کر کھیلنے کا موقع دیاگیا اور یہ تنظیمیں میتئی برادری کے نوجوانوں کو منظم کرنے لگیں۔ ان کے اندر یہ خیال بھرا کہ ریاست میں زمین کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، اسے حاصل کیا جائے تاکہ ترقی کی مزید راہیںکھل سکیں۔ وادی میں محدود میتئی برادری کو پہاڑکی چوٹیوں تک رسائی دینے کیلئے عدالت کا سہارا لیاگیا۔اس کے بعد سے ہی تشدد کا یہ نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔عیسائی اکثریت والے کوکی زو قبائل کاکہنا ہے کہ انہیںمیتئی برادری منی پور کی فرقہ وارانہ حکومت کی طرف سے نسلی صفائی کی مہم کی وجہ سے مشکل وقت کا سامنا ہے اوراس کا وہ ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ منگل کی رات ہوئے واقعہ کے بعدمنی پور میں قبائلیوں کی بہبود کیلئے کام کرنے والے آئی ٹی ایل ایف فورم نے ریاست کے گورنر کو خط لکھا ہے جس میں کوکی زو قبائل کی نسل کشی کے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کوکی زو کے لوگوں پر حملے حکومت کی ’رہنمائی‘ میں کیے جا رہے ہیں۔ منی پور پولیس کمانڈوز اور انڈین ریزروڈ بٹالین کی زیادتیوں نے اسے فرقہ وارانہ ریاست بنا دیا ہے۔آئی ٹی ایل ایف نے کوکی زو کے لوگوں کو ’’غیر قانونی تارکین وطن،غیر ملکی،منشیات فروش،جنگل میں تجاوزات کرنے والے، کرایہ داراوردہشت گرد‘‘ کہنے پر حکومت کی مذمت کی ہے۔
بی جے پی کی ڈبل انجن والی اس ریاست میں ترقی کی راہ کشادہ ہونے کے بجائے مسلسل آتش و آہن کی برسات ہورہی ہے جسے امت شاہ بھی نہیں روک پارہے ہیں۔تشدد کے ایک ماہ بعد امپھال پہنچنے والے امت شاہ نے واقعات کی تحقیقات کیلئے ایس آئی ٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن تشدد روکنا تو دور کی بات ہے، ان کی ایس آئی ٹی دو ہفتوںبعد بھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پائی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی تک بھگواپھریرا لہرانے کی عجلت میں میتئی برادری کے نوجوانوں کو فساد اور تشددکے ایسے ایندھن میں جھونک دیاگیا ہے جس میں جل کر کندن بننے کے بجائے راکھ ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔
[email protected]
بھگوا سیاست کا شکار منی پور
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS